کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 622
۷۴۔ منتہی الآمال: تألیف عباس القمي المتوفی ۱۳۵۹ ھجریۃ۔
محسن الامین [مصنف کا تعارف کراتے ہوئے] کہتا ہے :
’’شیخ عباس بن محمد رضا بن ابو القاسم ۱۲۹۳ ہجری تا ۱۳۵۹ ہجری۔ عالم و فاضل ؛ محدث، واعظ؛ عابد و زاہد ؛ اس کی کئی کتابیں ہیں۔‘‘[1]
۷۴۔ تاریخ الشیعۃ : تألیف الشیخ محمد حسین المظفری المتوفی ۱۳۶۹ ھجریۃ۔
آغا بزرگ طہرانی [مصنف کے متعلق ]کہتاہے:
’’شیخ محمد حسین بن شیخ یونس المظفر النجفی؛ عالم و فاضل، نجف میں پیدا ہوا۔ اور وہیں پر تعلیم حاصل کی۔ اور اپنے زمانہ کے علماء کی ایک جماعت کے پاس حاضر ہوا؛ یہاں تک کہ کمال مہارت حاصل کر لی، پھر آپ کو بحیثیت رجسٹرار ’’قورنہ‘‘بھیجا گیا۔ جہاں پر وہ اپنے فرائض انجام دیتا رہا، یہاں تک ۱۳۶۹ ہجری میں اس کا انتقال ہوگیا۔‘‘[2]
۷۵۔ أصل الشیعۃ وأصولہا: محمد حسین کاشف الغطاء المتوفی ۱۳۷۳ ھجریۃ۔
آغا بزرگ طہرانی [مصنف کے متعلق ]کہتاہے:
’’شیخ محمد الحسین بن شیخ اہل عراق شیخ علی بن الحجۃ الشیخ محمد رضا بن المصلح بین الدولتین (دو ملکوں کے درمیان صلح کرانے والا) الشیخ موسیٰ بن شیخ الطائفہ الشیخ الاکبر جعفر بن علامہ شیخ خضریحی ابن سیف الدین مالکی، جناحی النجفی، کبار معاصر علماء اسلام اور مشہور مشاہیر شیعہ علماء میں سے تھا۔ مشہور جلیل القدر علمی گھرانے میں اچھی تربیت پائی۔ عیش و راحت کی زندگی میں ایک اعلیٰ گھرانے میں پروان چڑھا۔ ادراکات و محسوسات نمایاں ہوئے؛ اورفکر حقائق کی گہرائیوں اور علوم کے فضائل پر دسترس رکھنے لگی۔ یہاں تک یہ تمام امور اس کے لفظوں کی خوشبو؛ قلم کی رشحات سے ظاہر ہونے لگے۔ یہ امور بالخصوص آپ کے خطبات، ادب، بلاغت میں بادلوں کی پھوار ہے کہ ان امور میں وسعت حاصل کی؛ اور اپنا پورا کردار ادا کیا۔ اور میں جب یہ کہتا ہوں تو کوئی غلو نہیں کرتا کہ ’’وہ شیعہ خطیبوں کا سب سے بڑا خطیب تھا۔‘‘[3]
۷۵۔ أجوبۃ مسائل جار اللّٰه: تألیف عبد الحسین شرف الدین الموسوي المتوفی ۱۳۷۷ ھجریۃ۔
آغا بزرگ طہرانی [مصنف کے متعلق ]کہتاہے:
’’سید عبد الحسین بن سید یوسف بن سید جواد بن سید اسماعیل بن سیدمحمد بن سید ابراہیم المقلب: شرف
[1] نقباء البشر في القرن الرابع عشر ۳/۱۱۹۶-۱۱۹۸۔
[2] نقباء البشر في القرن الرابع عشر۳/ ۱۹۶۔