کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 621
’’محمدبن عقیل کی ایک معاصر نے اپنا نام ذکر کیے بغیر؛ ’’النصائح الکافیۃ‘‘ کی دوسری طبع ۱۹۸۱م؛ کے مقدمہ میں بڑی مدح سرائی کی ہے۔ وہ کہتا ہے :
’’ جناب علامہ سید محمد بن عقیل کے ساتھ میرا تعارف نہیں ہوا، اور نہ ہی کبھی بھی کسی وقت میں ان سے ملا ہوں۔ مگر اس سے بار بار ملاہوں، اور میرا تعارف ہوا ہے ؛ میں نے انہیں عربی ثقافت کے ثمرات میں سے ایک پختہ ثمر پایا۔ علوم دین اور لغت میں بڑی گہری اور شامل مہارت تھی۔ حق تو یہ ہے کہ وہ اپنے مواہب میں یکتا تھا۔جو اس نے تالیف کیا، اور لکھا، اس میں اسے علم وہبی عطا ہوا تھا۔ میں نے سید محمد عقیل کو آمنے سامنے تو نہیں دیکھا، لیکن مکتبہ میں میرا اس کے ساتھ تعارف ہوا، اور اس عظیم شخصیت کے ساتھ میری ملاقات ہوئی۔ ادب میں اس کے وسیع مطالعہ، اور واضح انصاف کے ساتھ …!!
ہم اس فقیر قسم کے کلمہ سے یہ نہیں چاہتے کہ ہم جمہور قارئین کے لیے مؤلف (کی کتاب) کا پیش لفظ تحریر کریں۔ بے شک اس کی یہ کتاب، اور دوسری کتابیں اسے ایک علامہ اور محقق کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ اور نہ ہی ہم اس کتاب ’’ النصائح الکافیۃ لمن یتولی معاویۃ ‘‘ پر کو تقدیم لکھنا چاہتے ہیں، بلکہ یہ خود ایک مقدمہ ہے جو اپنے آپ کو قارئین کے سامنے پیش کرتی ہے۔‘‘ [1]
۷۳۔ تنقیح المقال في علم الرجال: تألیف الشیخ عبد اللّٰه بن محمد بن حسن بن عبد اللّٰه المقامانيالمتوفی ۱۳۵۱ ھجریۃ۔
آغا بزرگ طہرانی [مصنف کا تعارف کراتے ہوئے]کہتاہے:
’’شیخ عبداللہ بن شیخ محمد بن حسن بن شیخ عبداللہ بن محمد باقر بن علی اکبر بن رضا المامقانی النجفی ؛ بڑا عالم اور ماہر فقیہ۔‘‘
۱۲۹۰ ہجری میں نجف اشرف میں پیدا ہوا۔ موصوف علماء اجلاء اور فاضل فقہاء میں سے ایک تھا۔ نیکو کار اور متقی انسان تھا جس میں فضل و معرفت، ورع و تقویٰ اور زہد کی صفات جمع تھیں، اور ان کی وجہ سے معروف تھا۔ اپنے اس بلند مقام و منزلت کے ساتھ ساتھ حسن اخلاق سے بہرہ ور تھا۔ موصوف رحمہ اللہ کا انتقال فجر کے قریب ۱۶ شوال ۱۳۵۱ ہجری میں ہوا۔ بڑے ادب و احترام کے ساتھ جنازہ اٹھایا گیا ؛ جس کے احترام میں بازار بند کردیے گئے۔ اس کی سب سے اہم مشہور اور جلیل القدر تالیف (تنقیح المقال فی علم الرجال ) ہے۔ یہ بڑی کتاب ہے جو تین ضخیم جلدوں میں ہے۔ اس کی تالیف، تہذیب اور طباعت کا کام صرف تین سال کے عرصہ میں ہوا۔ ان میں سے دو جلدیں اس کی زندگی میں ہی طبع ہوگئی تھیں، جب کہ تیسری جلد کو پورا کرنے سے پہلے اس کی وفات ہوگئی؛ جوکہ اس کے فاضل سسر شیخ موسیٰ آل اسد اللہ التستری الکاظمی نے مکمل کی۔ ‘‘[2]
[1] نقباء البشر فی القرن الرابع عشر۲/۵۴۳؛ ۵۴۵؛ ۵۴۹؛ ۵۵۰۔