کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 619
المتوفي ۱۳۱۹ ھجریۃ۔
آغا بزرگ طہرانی [مصنف کا تعارف کراتے ہوئے]کہتاہے:
’’شیخ علی بن عبد اللہ بن علی البحرانی ؛ ماہر عالم تھا۔ اس نے سید عبد الحسین بن المیرزا علی اصغر؛ جو زنجبار کا عالم تھا؛ کے طلب کرنے پر ایک کتاب ’’ رسالۃ السید الزنجباري فی العلم الإلٰہی ‘‘ کے رد میں لکھی۔ اس کتاب میں اس نے مستحیل کے ساتھ عدم تعلق کے بارے میں کہا تھا۔موصوف نے (شیخ علی نے اپنے رد کے رسالہ میں ) مستحیل اور معدومات کے ساتھ علم کے تعلق کا دعویٰ کیاہے۔ پھر سید زنجباری نے اپنا تیسرا مقالہ لکھا، جس میں موصوف (شیخ علی) کی کتابوں میں ان کے اعتراضات کا جواب دیا۔ اس کتاب کے لکھنے سے ۱۳۰۹ ہجری میں فارغ ہوا۔ یہ رسالہ بھی سید مذکور کے رسائل کے ساتھ ملا ہوا ہے، جو سید جعفر بن محمد المرعشي کے پاس موجود ہے۔ ان رسائل سے اس کی فضیلت اور مہارت ظاہر ہوتی ہے۔ موصوف (شیخ علی) اپنی زندگی کے آخری ایام میں ’’ بندر‘‘ (ایک ایرانی شہر) چلے گئے تھے وہیں پر ان کا انتقال۱۳۱۹ہجری ہوا۔‘‘ [1]
۷۱۔ فصل الخطاب فی إثبات تحریف کتاب رب الأرباب:تألیف حسین محمد تقی الدین النوری الطبرسی المتوفی ۱۳۲۰ھجریۃ۔
آغا بزرگ طہرانی [مصنف کا تعارف کراتے ہوئے]کہتاہے:
’’ شیخ میرزا حسین بن المیرزا محمد تقی بن المیرزا علی محمد تقی النوری الطبری۔ پچھلی صدیوں میں امام ائمۃ الحدیث و الرجال ؛ اور بڑے شیعہ علماء ؛ اوراس صدی میں اسلام کی بڑی شخصیات میں سے تھا۔ شیخ نوری سلف صالحین کا ایک نمونہ تھا؛ جس کا وجود اس زمانہ میں نادر ہے۔ وہ اپنی جداگانہ عبقری شخصیت کی وجہ سے ممتاز تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کی عجیب نشانیوں میں سے ایک تھا۔ جس میں مواہب ِ غریبہ پوشیدہ تھے۔ اور اس کے شریفانہ ملکات نے اسے اس اہل بنادیا تھا کہ اسے شیعہ کے ان چیدہ چیدہ علماء میں شمار کیا جائے جنہوں نے اپنی عمریں اور لمبی زندگیاں دین او رمذہب کی خدمت میں لگادیں۔
اس کی زندگی اعمال صالحہ کا ایک روشن باب ہے۔ اس کے علوم و ماثر کی وجہ سے اب یہ لازم ہوگیا ہے کہ اس کی شخصیت زمانے گزرنے کے باوجود ہمیشہ زندہ رہے۔ اور مؤرخین اور مؤلفین پر لازم ہوگیا کہ وہ اس کا خیال رکھیں، اور اس کے علوم سے فائدہ حاصل کریں۔ اس نے اپنے جان کو علم کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا۔
[1] مقدمۃ کتاب حق الیقین : عبد اللّٰه شبر ؛ بقلم محمد صادق السید محمد حسین الصدر : ص (ي)۔
[2] مقدمہ کتاب حق الیقین
[3] الذریعۃ ۲۵/۲۹۰۔