کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 617
محمد العصفور البحراني الدارزي المتوفی ۱۲۱۶ ھجریۃ۔
شیخ ابو احمد بن احمد بن خلف بن احمد العصفور البحرانی نے علماء کے اقوال اوران کی مدح سرائی؛ شیخ حسن دارزی کی کتاب ’’انوار الوضیۃ ‘‘ پر تحقیق کے مقدمہ میں نقل کیے ہیں۔
ذیل میں ان کے اقوال (میں سے کچھ) ذکر کیے جارہے ہیں :
شیخ علی البحرانی کہتا ہے: ’’(شیخ) رحمہ اللہ علماء ربانیین اور فاضل، متبع؛ ماہر، اور متاخرین میں جلیل القدر علماء میں سے تھا۔ دین اور مذہب کا ستون تھا بلکہ بعض بڑے علماء نے اسے بارہویں صدی کا مجدد شمار کیا ہے۔
آغا بزرگ طہرانی کہتاہے:
’’ موصوف اپنے زمانہ میں فرقۂ اخباریہ کے رہنماؤں میں سے اور ان کا شیخ ؛ اور جلیل القدر نشانی تھا۔ اور کثرت سے لکھنے والے؛ فقہ، اصول اور حدیث کے متبحر مصنفین میں سے تھا۔ وہ متاخر دور میں شیوخ الاجازۃ (مجاز مشائخ) میں سے ایک تھا، جس کو اس کے چچا نے (حدیث روایت کرنے کی) اجازت دی تھی۔ اور اس نے کتاب ’’لؤلؤۃ البحرین في الإجازۃ لقرتي العین ‘‘ لکھی۔ ‘‘
محسن الامین کہتا ہے :
’’اپنے زمانہ میں اخباریہ (خبر لکھنے والے/ تاریخ نگار) فرقہ کا شیخ اور ان کی نشانی (علامت) تھا۔ علم فقہ اور حدیث میں متبحر تھا۔علم کو عام کرنے کثرت مطالعہ والا تھا۔ تدریس کی حدیں اس پر ختم ہوتی تھی۔ اس علاقے سے اور قطیف اور احساء اور دوسرے علاقوں کے علاقہ سے طلبہ اس کے پاس جمع رہتے تھے۔‘‘[1]
۶۶۔ الرجعۃ: تألیف الشیخ أحمد بن زین الدین الأحسائي المتوفی ۱۲۴۱ ھجریۃ۔
اس کے متعلق خونساری کہتا ہے:’’ عارف باللہ حکماء کا ترجمان، متکلمین عرفاء کی زبان، غرۃ (چمک) دہر ؛ فلسفی عصر؛ عالمِ اسرار الفاظ و معانی؛ اس متاخر دور میں معرفت؛ فہم، کرامت، عزم، عمدگیٔ سلیقہ؛ حسن ِ طریقہ، صفاء حقیقہ(صاف حقیقت)؛ کثرت معانی؛ علم عربی، اخلاق فاضلہ، اور عادات محمودہ ؛ علمی اور عملی حکمت؛ حسنِ تعبیر، فصاحتِ تقریر؛ اور اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبت اور خلوص میں اس جیسا کوئی نہیں دیکھا گیا۔ یہاں تک کے بعض ظاہر پرست علماء نے اس پر افراط اور غلو کا الزام لگایا ہے، حالانکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ بڑی اونچی منزلت والا اور جلیل القدر انسان ہے۔‘‘ [2]
۶۷۔ حق الیقین في معرفۃ أصول الدین۔
۶۸۔ الأصول الأصلیۃ: تألیف عبد اللّٰه شبر المتوفی ۱۲۴۲ ھجریۃ۔
[1] أمل الآمل ۲/۳۳۶۔
[2] لؤلؤۃ البحرین :ص ۱۱۱۔
[3] أعیان الشیعۃ ۱۰/ ۳۱۷۔