کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 607
’’ اور محقق طوسی اللہ تعالیٰ اس کی روح ِقدسی کو آرام پہنچائے ؛ اس کی تالیف چڑھتے ہوئے سورج سے بڑھ کر مشہور ہے۔‘‘[1] ۳۸۔ عیون المعجزات :تألیف المحدث الجلیل الشیخ حسین بن عبد الوہاب۔ محسن امین، حسین بن عبد الوہاب سے متعلق کہتا ہے : ’’ہمارے بڑے اجلہ معاصر علماء :سیدمرتضی؛ رضی؛ (کی صف) میں سے تھا۔ اور یہ دونوں موصوف کے ساتھ بعض مشائخ میں شریک ہیں۔ جیسے کہ ابو التحف،… اور اس کے ہم نوا لوگ۔ اخبار او راحادیث پر بڑی نظر رکھنے والا ؛ فقیہ، اور عمدہ شاعر تھا۔ اس کی کتاب میں سے ’’ عیون المعجزات‘‘ بھی ہے۔‘‘ [2] مجلسی نے ’’عیون المعجزات ‘‘کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے: ’’ میرے ہاں (اس میں کوئی غلطی یا تہمت) ثابت نہیں ہوئی۔ سوائے اس کے کہ یہ ایک لطیف کتاب ہے، اور ہمارے ہاں اس کا پرانا نسخہ ہے۔‘‘[3] ۳۹۔ روضۃ الواعظین :تألیف الشیخ العلامۃ محمد بن الفتال النیسابوري المتوفی ۵۰۸ ھجریۃ۔ مجلسی نے کہا ہے : ’’ کتاب روضۃ الواعظین و تبصرۃ المتعظین ‘‘شیخ محمد بن علی بن احمد الفارسی کی تصنیف ہے۔ پھر جان لے کہ :’’ بے شک علامہ رحمہ اللہ نے مؤلف کا وہی نام ذکر کیا ہے، جیسے کہ ہم نے ذکر کردیا۔ اور ابن شہر آشوب کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مؤلف محمد بن حسن بن علی الفتال نیشا پوری ہے۔ اور یہ کہ تفسیر کا مصنف اور روضہ کا مصنف دونوں ایک ہیں۔ اسے ہی کتاب ’’ معالم العلماء ‘‘ میں ذکر کیا گیا ہے۔ ابن داؤد نے کتاب الرجال میں کہا ہے : ’’محمد بن احمد بن علی الفتال نیشا پوری ؛ المعروف ابن الفارسی ؛ جلیل القدر متکلم، فقیہ، عالم، زاہداور متقی انسان ہے۔ ‘‘[4] اور مجلسی نے اپنے معتمد علیہ مصادر کی توثیق کرتے ہوئے کہا ہے : ’’ کتاب روضۃ الواعظین جس کے بارے میں ہم نے تذکرہ کیاہے، بے شک یہ علماء اعلام کی’’ اجازات‘‘ میں داخل ہے۔ اور اس سے بہت سارے فضلاء کرام نے نقل کیا ہے۔ اور اس کے مؤلف کا حال مجھے اپنے اسلاف کی تحریر وں سے معلوم ہوا ہے۔ ۴۰۔ إعلام الوری :تألیف لأبي علی الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ۵۴۸ ھجریۃ
[1] بحار الأنوار ۱/۲۷۔ [2] رجال العلامہ الحلی : ص ۱۴۸۔ [3] مقدمۃ بحار الأنوار ص ۹۱۔