کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 606
ہے۔اس کے عنوان میں لکھا تھا :
’’ کتاب المستخرج من کتاب الاختصاص ‘‘ تصنیف ابو علی احمد بن حسین بن احمد بن عمران رحمہ اللہ۔‘‘
لیکن خطبہ کے بعد ایسے لکھا ہوا ہے :
’’ محمد بن محمد النعمان نے کہا ہے‘‘: مجھ سے ابو غالب احمد نے حدیث بیان کی … آخر سند تک (سارے راوی ذکر کیے) ایسے ہی آخر تک شیخ مفید کے مشائخ سے شروع کرتا ہے۔ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب شیخ مفید کی تصنیفات میں سے ہے۔ اس کی ساری کتابیں مشہور ہونے کی وجہ سے محتاج بیان نہیں ہیں۔‘‘[1]
۳۱۔ التہذیب۔
۳۲۔ الاستبصار۔
۳۳۔ التبیان۔
۳۴۔ الغیبۃ۔
۳۵۔ أمالي الطوسي۔
۳۶۔ الفہرست۔
۳۷۔ رجال الطوسي: تألیف أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسيالمتوفی ۴۶۰ ھجریۃ۔
علامہ حلی نے کہا ہے :
’’ محمد بن الحسن بن علی الطوسي أبو جعفر، شیخ الإمامیہ ؛ قدس اللّٰه روحہ ؛ رئیس الطائفۃ، جلیل القدر، عظیم المنزلۃ، ثقہ، صدوق ؛ عارف بالأخبار، والرجال، والفقہ والأصول و الکلام والادب۔ تمام فضائل اسی کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں۔ اس نے اسلام کے ہر فن کے متعلق تصنیف لکھی ہے اور اصول و فروع میں عقائد کی تہذیب کی ہے۔ علم اور عمل میں نفسیاتی کمال اس میں جمع تھے۔‘‘[2]
مجلسی نے کہا ہے :
’’ شیخ طوسی ؛ ابو جعفرمحمد بن الحسن بن علی الطوسی؛ شیخ ِطائفہ او رفقیہ امت،کی ثقہ ہونے پر؛ اور علوم و فنون میں تبحر پر اجماع ہے۔‘‘[3]
اس کی کتاب کی توثیق کرتے ہوئے کہا ہے :
[1] مقدمہ تحف العقول بقلم محمد حسین اعلمی ص ۷۔
[2] الفہرست ص ۱۹۰-۱۹۱؛ أمل الآمل : حر عاملی ۲/ ۳۰۴۔
[3] لؤلؤۃ البحرین ص۳۵۶-۳۵۷۔