کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 604
الأخوان، او رفضائل أشہر‘‘ یہ (کتب) بھی اپنے مشہور ہونے میں ان کتب اربعہ سے کم نہیں ہیں جن پر ان زمانوں میں دارو مدار ہے۔ اور یہ ہماری ’’اجازت‘‘ میں شامل ہیں، اور جتنے بھی بہترین فاضل لوگ صدوق سے متاخر ہیں، انہوں نے اس کی کتابوں سے نقل کیاہے۔‘‘[1]
۲۴۔ کتاب الغیبۃ :تألیف محمد بن ابراہیم بن جعفر النعماني۔
علامہ حلی نے کہا ہے :
’’محمد بن ابراہیم بن جعفرأبو عبد اللہ الکاتب النعماني؛ المعروف ابن زینب ’’ہمارے اصحاب میں سے بڑے شیخ ہیں۔ بڑی قدر و منزلت والے،صحیح العقیدہ ؛ کثرت سے احادیث والے تھے۔ بغداد وارد ہوئے، اور وہاں سے شام چلے گئے، اور وہیں پر وفات ہوئی۔‘‘[2]
حر عاملی نے حلی کا یہ سابقہ کلام نقل کرنے کے بعد کہا ہے :
’’ نجاشی نے بھی اس کا ذکر کیا ہے، اور اس کی کئی کتابیں زیادہ ذکر کی ہیں ؛ ان میں سے : ’’کتاب الغیبۃ ؛ کتاب الفرائض ؛ کتاب الرد علی الإسماعیلیۃ ؛ بھی ہے۔ میں نے دیکھا کہ ابو الحسن محمد بن علی الشجاعی کاتب ان کو کتاب الغیبۃ پڑھ کر سنا رہا تھا؛ جو کہ محمد بن ابراہیم النعمانی کی ’’مشہد العنیقۃ‘‘ پر تصنیف ہے۔‘‘ [3]
۲۵۔ تحف العقول عن آل رسول :تألیف الشیخ الثقۃ الجلیل الأقدم أبي محمد الحسن بن علی بن الحسین بن شعبۃ الحراني
حر عاملی نے (مصنف کی مدح سرائی میں )کہا ہے :
’’شیخ أبو محمد الحسن بن علی بن الحسین بن شعبۃ، فاضل اور محدث جلیل ہے۔ اس کی کتاب ’’تحف العقول، عن آلِ رسول‘‘ ہے۔ بہت فوائد والی اور مشہور کتاب ہے۔‘‘ [4]
مجلسی نے کہا ہے :
’’ کتاب تحف العقول ‘‘ میں سے ہمیں صرف’’ کتاب عتیق ‘‘ ہی ملی ہے۔ اس کی تنظیم و ترتیب مؤلف کی اعلیٰ شان پر دلالت کرتی ہے۔ اور اس کا اکثر حصہ مواعظ پر اور ان اصولوں پر مشتمل ہے، جن کی سند میں ہمیں ضرورت ہوتی ہے۔‘‘[5]
[1] مقدمہ بحار الأنوار ص ۶۸۔