کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 603
۲۱۔ عیون أخبار الرضا
۲۲۔ معانی الأخبار
۲۳۔ صفات الشیعۃ و فضائل الشیعۃ :تألیف أبي جعفر محمد بن علی بن الحسین بن موسیٰ بن بابویہ القمي المعروف بالصدوق المتوفی ۳۸۱ ھجریۃ
طوسی نے (مصنف کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے) کہا ہے:
’’ محمد بن علی بن الحسین بن موسیٰ بن بابویہ القمي؛جلیل القدرکنیت ابو جعفر‘‘ بڑا انسان تھا۔ احادیث کا حافظ اور علم رجال پر بڑی نگاہ رکھنے والا، اخبار کا نقاد تھا۔ اہل قم میں اس جیسا ذہین اور بڑا عالم نہیں دیکھا گیا۔ اس کی تقریبًا تین سو کتابیں ہیں …‘‘ان میں سے چند کا تذکرہ بھی کیا ہے، ان میں سے :
’’ کتاب دعائم الإسلام، اور کتاب المقنع‘‘ اور کتاب المرشد‘‘ اور ’’کتاب الفضائل ‘‘ اور ’’ کتاب علل الشرائع ‘‘ اور ’’کتاب من لا یحضرہ الفقیہ‘‘؛ اور’’ کتاب عقاب الأعمال ‘‘ اور ’’ کتاب معانی الأخبار ‘‘ ہیں۔
مجلسی نے کہا ہے :
’’محمد بن علی بن الحسین بن موسیٰ بن بابویہ القمي أو جعفر الصدوق ‘‘ اس کا معاملہ علم و فہم، ثقافت اور فقاہت، جلالت اور ثقاہت، کثرت تصنیف اور عمدگیٔ تالیف میں اس سے بلند و بالا ہے کہ قلم اس کا احاطہ کریں، اور بیان اس کو اپنے اندر سمو سکے۔ اس سے جتنے بھی متاخرین ہیں، انہوں اس کی مدح سرائی اور تعریف میں مبالغہ کیا ہے۔ ان میں سب سے آگے علم رجال کا بڑا ماہر، نجاشی ہے، وہ اپنی کتاب ’’ الفہرست‘‘ میں کہتا ہے : ’’محمد بن علی بن الحسین بن موسیٰ بن بابویہ ابو جعفر نزیل رے؛‘‘ ہمارے شیخ اور فقیہ، اور اہل خراسان کی نگاہوں کا مرکز۔ ۳۳۵ ہجری میں بغداد وارد ہوئے ؛ اور شیوخ ِ طائفہ سے سماعت کیا ؛ اس وقت وہ چھوٹی عمر کے تھے۔‘‘[1]
مجلسی نے ان کتابوں کی توثیق کرتے ہوئے ؛ جن پر اس نے اپنے موسوعہ بحار الأنوار کی تالیف میں اعتماد کیا ہے، کہا ہے :
’’ اور ان میں صدوق کی کتابیں بھی ہیں اور جان لیں کہ ہم نے نقل میں جن کتب پر اعتماد کیا ہے، ان میں سے اکثر اپنے مؤلف کی طرف منسوب ہونے میں مشہور ہیں، جیسے صدوق رحمہ اللہ کی کتابیں۔‘‘بے شک یہ سب برابر ہیں : ’’الہدایۃ، اور ’’ صفات الشیعۃ، اور فضائل الشیعۃ، اور مصادقۃ
[1] مقدمہ بحار الأنوار ص۲۰۵۔
[2] جامع الرواۃ ۲/ ۲۸۲-۲۸۳۔
[3] تنقیح المقال : ۲/ ۲۸۲-۲۸۳۔