کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 600
کتب میں سے ہے؛ اور امامیہ کی عظیم کتاب ہے۔ امامیہ کے لیے اس جیسی کو ئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ مولی محمد امین استر آبادی نے اس کے فوائد بیان کرتے ہوئے کہا ہے : ’’ہم نے اپنے مشائخ اور علماء سے سنا ہے کہ :’’ اسلام میں کوئی کتاب اس جیسی نہیں لکھی گئی جو اس کے متوازن ہو، یا اس کے قریب ہو۔‘‘[1]
۱۱۔ تفسیر العیاشي تألیف: المحدث الجلیل أبي النصر محمد بن مسعود بن عیاش السلمي السمرقندي المعروف بالعیاشي
طوسی نے کہا ہے:
’’محمد بن مسعود بن محمد بن عیاش سمرقندی ابو نضر کنیت؛ اہل مشرق میں کثرت علم و فضل اور ادب،فہم والا اپنے زمانہ میں نبیل-نمایاں شخصیت - ؛ جس نے دو سو سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں۔‘‘[2]
مجلسی نے کہا ہے :
’’محمد بن مسعود بن محمد بن عیاش؛ سلمی سمرقندی ؛ ابو نضر کنیت؛ المعروف بالعیاشی ؛ اس گروہ کے سرداروں میں ؛ رؤوساء اور بڑوں میں سے ہے۔ جلیل القدر، عظیم الشان وسیع روایت والا؛ حدیث اور رجال کا نقاد ؛ اس کا ذکر ہمارے لوگوں نے اپنی کتب ’’ حالات ِ زندگی ‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے، اور اس کی شان میں تعریف اور بڑا بنانے میں مبالغہ کیا ہے۔‘‘[3]
محمد حسین طبا طبائی نے تفسیر عیاشی پر اپنے مقدمہ میں کہا ہے :
’’ بے شک علم تفسیر میں ہمیں جو بہترین چیز وراثت میں ملی ہے، تفسیر کی وہ کتاب ہے جو ہمارے شیخ عیاشی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے آج اپنے قارئین کے لیے پیش کیاجارہا ہے۔ مجھے میری عمر کی قسم ! قدیم وقت میں اپنے موضوع پر لکھی گئی سب سے بہترین کتاب ہے۔ اور کتب تفسیر میں جو ورثہ ہمیں ہمارے پرانے مشائخ سے ملا ہے، ان میں سب سے ثقہ کتاب ہے۔ اس کتاب کو وقت تالیف سے لے کر آج تک علماء کے درمیان مقبولیت حاصل رہی ہے۔ جس پر تقریبًا گیارہ صدیاں گزر چکی ہیں کہ اسے بغیر کسی قدح اور بغیر کسی گہرائی میں جانے کے قبول کیا جاتا رہاہے۔‘‘[4]
۱۲۔ دلائل الإمامۃ : تألیف أبي جعفر محمد بن جریر بن رستم الطبري
طوسی نے کہا ہے :
[1] تنقیح المقال:۱/۳۱۲۔
[2] الذریعۃ ۱۶/۱۷۹۔
[3] الفہرست: ص:۱۶۵۔
[4] جامع الرواۃ ۲/۲۱۸۔أنظر : رجال العلامۃ الحلي: ص:۱۴۵
[5] الذریعۃ ۱۷/۲۴۵۔