کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 598
آغا بزرگ طہرانی [مصنف کا تعارف کراتے ہوئے]کہتاہے:
’’ علی بن ابراہیم بن ہاشم القمی ابو الحسن، صاحب التفسیر ؛ کلینی کے بڑے مشائخ میں سے ہیں ؛ … اور اس سے کلینی کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی روایت کیا ہے۔‘‘[1]
شیخ طیب موسوی الجزائری نے تفسیر کے مقدمہ میں لکھا ہے :
’’اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تفسیر جو ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے ؛ یہ ہم تک پہنچے والی پرانی تفسیروں میں سے ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کا متن اس فن میں اتنا ظاہر اور صاف نہ ہوتا۔ اور نہ ہی علم کے ماہرین اس کی طرف رجوع کرکے سکون حاصل کرتے۔ اور کتنی ہی قیم تفاسیر جنہیں احادیث سے چنا گیا ہے، آپ انہیں اسی تفسیر کے نور سے منور پائیں گے۔ جیسے کہ صافی اور مجمع البیان، اور برہان …۔ یہاں تک کہ انہوں نے کہا ہے : ’’ جملہ طور پر یہ تفسیر (تفسیر) ربانی ہے ؛ اور ایک شعاعیں بکھیرتی ہوئی روشنی ہے، اور اپنے معانی میں بڑی گہری (تفسیر) ہے؛ الفاظ بڑے قوی ہیں، اپنے ڈھنگ میں بڑی ہی عجیب ہے، اور بہت ہی گہرائی والی ہے، ایسی تفسیر کوئی عالم ہی لکھ سکتا ہے، اور اس کے معانی کو کوئی عالم ہی سمجھ سکتا ہے۔‘‘[2]
۹۔ فرق الشیعۃ :تألیف للشیخ المتکلم الشیخ ابن موسیٰ النوبختي المتوفی ۳۱۰ ھجریۃ
طوسی نے (مصنف کی توثیق کرتے ہوئے) کہاہے:
’’حسن بن موسیٰ نو بختی ؛ سہل بن نو بخت کا بھانجا ہے، اس کی کنیت ابو محمد ہے۔ متکلم اور فلسفی ؛ اس کے پاس فلسفہ پڑھنے والوں کی ایک جماعت اکھٹی ہوا کرتی تھی؛جیسے ابو عثمان دمشقی؛ اسحاق، ثابت اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ۔
اور(موصوف) امامیہ فرقہ سے تعلق رکھتا تھا، اچھے اعتقاد والا تھا۔ اپنے ہاتھوں سے بہت کچھ لکھا۔ ان کی علم الکلام ؛ فلسفہ کے رد پراور اس کے علاوہ بھی کتابیں ہیں۔‘‘[3]
مامقانی نے نجاشی سے نقل کیاہے :
’’حسن بن موسیٰ ابو محمد نو بختی ہمارے شیخ، متکلم، اپنے زمانہ میں ہم مثلوں پر نمایاں، تیسری صدی میں اور اس کے بعد ؛ اس نے اوائل پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب: ’’ الآراء و الدیانات ‘‘بھی ہے۔‘‘ [4]
[1] بحار الأنوار :۱/۳۷۔
[2] تنقیح المقال: ۲/۳۔
[3] مقدمۃ تفسیر فرات بن ابراہیم الکوفي بقلم محمد الفروي الأورد بادي ص ۲۔
[4] مقدمۃ البحار؛ ص: ۱۲۸۔