کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 596
علامہ کوجہ باغی کتاب ’’ بصائر الدرجات ‘‘کے مقدمہ میں لکھتا ہے:
’’ جان لیجیے یہ ان کتابوں میں سے ہے جس پر چوٹی کے شیعہ علماء نے اعتمادکیا ہے، جیسے : صاحب الوسائل، اور مجلسی نے بحار الأنوار میں، اور اس کے لیے (یر) کی علامت(رمز) اختیار کی ہے۔ جس کی صراحت مقدمات ِ بحار کی پہلی فصل میں :’’مدارک البحار‘‘ میں کی ہے کہ:
’’ عظیم الشان شیخ اور ثقہ محمد بن حسن الصفارکی کتاب بصائر الدرجات …‘‘
عالم جلیل سید محمد باقر جیلانی اصفہانی؛ الملقب حجۃ الإسلام اپنی کتاب ’’ العدۃ‘‘ میں فاضل استر آبادی کے کلام کی شرح کرتے ہوئے کہتا ہے :
’’ الصفار بڑے محدثین اور علماء میں سے ہے اور اس کی کتابیں معروف و مشہور ہیں جیسا کہ کتاب ’’ بصائر الدرجات‘‘ اور باقی کتب۔‘‘ [1]
اس کے بعد کہتا ہے : ’’ اس سب کا حاصل کلام یہ ہے کہ یہ کتاب ہمارے ہاں معتبر اور متعمد اصولوں میں سے ہے۔‘‘[2]
۶۔ المقالات و الفرق :تألیف سعد بن عبد اللّٰه القمي الأشعري۔ المتوفی ۳۰۱ ھجریۃ
طوسی [مصنف کا تعارف کراتے ہوئے]کہتاہے:
’’ سعد بن عبد اللہ القمی؛ کنیت ابو القاسم ؛ جلیل القدر اور وسیع خبر ؛ کثرت تصنیف رکھنے والا ثقہ عالم ہے۔ اس کی کتابوں میں سے ایک : ’’کتاب الرحمۃ‘‘اور کتاب ’’مقالات الإمامیۃ ‘‘ بھی ہے۔‘‘[3]
علامہ حلی کہتے ہیں :
سعد بن عبد اللہ بن ابی خلف الاشعری القمی؛ کنیت ابو القاسم ؛ جلیل القدر اور وسیع الاخبار ؛ کثرت تصنیف رکھنے والا ثقہ عالم اور اس طائفہ کا شیخ ؛ فقیہ اور مرجع ہے۔ مولانا ابو محمد العسکری علیہ السلام سے ملاقات بھی ہے۔[4]
طوسی صاحب کہتے ہیں :
’’ابو القاسم سعد بن عبد اللہ بن ابی خلف الاشعری القمی اجلہ مشائخ اور ثقات میں سے ہیں۔ … نیز کہا ہے: ’’ اس کی بہت ساری کتابیں ہیں جنہیں نجاشی اور شیخ نے اپنی اپنی فہرست میں ذکر کیا ہے۔ ان میں سے: ’’ کتاب الرحمۃ ‘‘ اور بصائر الدرجات ؛ چار اجزاء میں ؛ اور المقالات والفرق‘‘ بھی ہے۔‘‘[5]
۷۔ تفسیر فرات الکوفي: تألیف فرات بن ابراہیم بن فرات الکوفي المتوفی ۳۰۷ ھجریۃ۔
[1] تنقیح المقال: ۱/۸۳۔
[2] تنقیح المقال:۱/۳۱۔
[3] الفہرست: ص:۳۲۔رجال العلامۃ الحلي ص ۵۔جامع الرواۃ ۱/۳۱۔
[4] الفہرست: ص:۱۷۴۔جامع الرواۃ ۲/۹۳۔
[5] مقدمۃ بحار الأنوار ص ۸۹۔