کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 594
۳۔ کتاب المحاسن : تألیف الشیخ الثقۃ الجلیل الأقدم أبي جعفر أحمد بن محمد بن خالد البرقی متوفی ۲۷۴ ھجریۃ وقیل :متوفی۸۰ ۲ ھجریۃ۔
طوسی نے [مصنف کا تعارف کراتے ہوئے ] کہا ہے :
’’احمد بن محمد بن خالد بن عبد الرحمن بن محمد علی البرقی ابو جعفر کوفی الاصل ہیں …خود ثقہ تھا ؛ مگر بہت سے ضعفاء سے روایت کیا ہے۔ اور مرسل روایات پر اعتماد کیا ہے۔ اس نے بہت ساری کتابیں تصنیف کی ہیں، ان میں سے ایک محاسن اسلام بھی ہے۔ اور اس کتاب میں زیادہ بھی کیا گیا ہے اور کم بھی کیاگیا ہے۔‘‘[1]
حلی نے اس کے بارے میں کہا ہے :
’’ابن فضائری کہتا ہے: اس میں اہل قم نے طعن کیا ہے؛ (مگر) اس میں کوئی طعن نہیں ہے۔ طعن ان میں ہے، جو وہ روایت کرتا ہے، اس لیے کہ یہ اہلِ اخبار کے طریقہ پر کسی سے بھی روایت لینے میں ہچکچاہٹ نہیں محسوس کرتا تھا۔‘‘[2]
مجلسی نے کہا ہے :
’’ ابو جعفر احمد بن محمد بن خالد ؛ اس نے بہت کچھ لکھا ؛ ان میں سے ایک کتاب ’’المحاسن ‘‘ ہے۔ یہ سو سے زائد کتابوں پر مشتمل ہے۔ یہ معتبر اصولوں میں سے ہے۔‘‘[3]
مامقانی ؛برقی کی شان میں علماء سابقین کے اقوال نقل کرنے کے بعد کہتا ہے :
’’ اور اگر آپ کہیں گے کہ وہ مراسیل اور اس جیسی روایات پر اعتماد کرتا ہے، تو اس پر کوئی اعتماد نہیں کیا جائے گا ؛تو ہر حدیث جس کی وہ روایت کرے، یا اس پر اعتماد کرے، جائز ہے کہ وہ ضعیف ہو یا مرسل ہو، اور اس پر سے اعتماد ساقط ہوجاتا ہے۔ شاید اسی طرف ابن فضائری نے اشارہ کیا ہے کہ : ’’ طعن تو اس کی روایات میں ہے۔‘‘
میں کہتا ہوں : محدثین کی یہ عادت رہی ہے، خصوصاً پرانے محدثین کی؛ کہ وہ سند کو ذکر کرتے ہیں، خواہ مرسل ہو یا عن عنہ سے متصل ہو۔ اوراپنے محل ِ بحث کے اعتبار سے (حدیث) ان دو قسموں سے باہر نہیں ہوسکتی۔ سواس سند میں دیکھا جائے گا: ’’ جیسا ناظر کے سامنے آئے گا اس کے مقتضی کے مطابق عمل کرے گا۔ اس حدیث پر اعتماد کرنے کے لیے مصنف کے ضعیف یا مرسل پر اعتماد کرنے کا کوئی دخل نہیں۔ اور اس کا تقاضا یہ بھی نہیں ہے کہ اعتماد سرے سے ہی ساقط ہوجائے۔ اس پر اعتماد ہونے اور نہ ہونے میں فرق یہ ہے کہ: حدثنی فلان؛ و عدمہ ‘‘ [مجھ سے فلاں نے حدیث بیان کی، اور اس کے نہ ہونے] کا قبول کیا جانا ہے۔
[1] بحار الأنوار :۱/۳۲۔
[2] جامع الرواۃ :۱/۳۷۴۔
[3] المصدر السابق۔
[4] ص ۱۸۹۔
[5] مقدمۃ البحار :ص۱۸۹۔
[6] الفہرست :ص: ۱۵۴۔
[7] جامع الرواۃ: ۲/ ۵۔