کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 592
۱۔ کتاب (سلیم بن قیس الہلالی) یا (السقیفۃ ابجدالشیعہ) متوفی ۹۰ ہجریۃ
اس کتاب کی ان کے بڑے علماء نے توثیق کی ہے۔ کتیبی نے روایت کیا ہے کہ ابان بن عیاش نے سلیم بن قیس عامری کی کتاب کا نسخہ لیا۔اور اسے علی بن الحسین علیہما السلام پر پڑھا؛ تو (علی بن حسین نے ) کہا:
’’سلیم رحمہ اللہ نے سچ کہا، اسی حدیث کو ہم جانتے ہیں۔ ‘‘[1]
محمد بن ابراہیم بن جعفر نعمانی ؛ کتاب ’’الغیبۃ‘‘ میں کہتا ہے :
’’تمام شیعہ میں کوئی ایسا نہیں ہے جس نے ائمہ علیہم السلام سے علم حاصل کیا ہو، اور اسے روایت کیا ہو؛ سوائے اس کے کہ : ’’ سلیم بن قیس الہلالی کی کتاب ہی اس میں اصل ہے ؛ اور وہ علم اصول کی بڑی کتابوں میں سے ہے جنہیں اہل علم اور محدثین نے اہل بیت علیہم السلام سے روایت کیا، اور ان میں سب سے پرانی کتا ب ہے۔
اس لیے کہ وہ تمام کتب جو اصل پر مشتمل ہوں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المومنین علیہ السلام ؛ مقداد ؛ سلیمان فارسی، ابو ذر ؛ اور جو ان کے بابر کے لوگ ہیں، ان سے روایت ہے۔ اور شیعہ کا مرجع یہی کتاب ہے، اور اسی سے حوالہ دیا جاتا ہے۔‘‘[2]
مجلسی سلیم بن قیس کی کتاب کی توثیق کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’ اس کی کتاب ’’ کتاب ِسلیم بن قیس کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ شیعہ اصول کی اصل ہے۔ عصر تابعین میں اسلام پر لکھے جانے والی پرانی کتاب ہے؛ جو سنن ابی رافع کے بعد لکھی گئی۔ اس کتاب کی وجہ سے مؤلف نے اپنے بعد آنے والوں پر تقدم کا شرف حاصل کیا ہے۔ یہ کتاب ہر زمانہ میں شیعہ کے لیے اصل رہی ہے، جس کی طرف وہ رجوع کیا کرتے، اور اس پر حوالہ دیا کرتے۔ حتی کہ اس کے بارے میں صادق علیہ السلام سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:
’’ ہمارے شیعہ اور محبین میں سے جس کے پاس سلیم بن قیس ہلالی کی کتاب نہ ہو، اس کے پاس ہماری تعلیمات میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ ہمارے اسباب میں سے کچھ جانتاہے۔ یہ کتاب اسرار آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہے۔‘‘ [3]
امام صادق سے یہ روایت مقامانی نے تنقیح المقال میں [4] ؛ اور علوی الحسینی نے سلیم بن قیس کی کتاب کے مقدمہ[5] میں نقل کی ہے۔