کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 59
ہر دم فساد اور افراتفری مچاتے رہتے ہیں۔ مکار یہودی مدحت پاشا نے اسے خطرناک صورت میں پیش کیا۔ جسے یہودی اپنا ہیرو مانتے ہیں، اور اسے ’’ابو احرار ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس نے یورپی صحافت کو اس کام پر لگایا، یہاں تک کہ پورے عالم میں یہ پروپیگنڈہ پھیل گیا۔[1]
۴۔ خفیہ تنظیمیں :
یہودیوں نے خلافت عثمانیہ ختم کرنے کے لیے خفیہ جماعتوں کی بنیاد رکھی اور انہیں تیار کیا۔ خاص طور پر ماسونی یہودی جو صیہونیت کے لیے کام کرتے ہیں۔
ماسونی یہودیوں نے مسلمانوں کی ہر جنس کو اس کی قومیت کی طرف بلانا شروع کیا۔ ترکی میں انہوں نے ’’ ترکی نوجوانوں ‘‘ کی ایک جماعت بنائی جو لوگوں کو ترک قومیت کی طرف بلاتے تھے۔ اور اس کے مقابلہ میں عرب علاقوں میں ’’ ینگ عرب ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ جس نے لوگوں کو عرب قومیت کی طرف بلانا شروع کیا۔ قومیت کی طرف دعوت کے ان مقاصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے عرب عیسائی مفکرین کی خدمات حاصل کیں۔[2] اس طرح یہودیوں کے لیے یہ بات ممکن ہوگئی کہ وہ مسلمانوں کے درمیان تفریق اور گروہ بندی کا بیج بو سکیں۔ اس طرح ہر ایک گروہ اپنی قومیت کی دعوت دینے لگا، اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو بھلا بیٹھے:
﴿یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّاخَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَ تْقٰکُمْ﴾ (الحجرات :۱۳)
’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیداکیا، اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو جان پہچان سکو۔بے شک تم سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔‘‘
ایسے ہی جب یہودی عثمانی خلافت کے ساتھ چپک گئے تو عالم اسلامی کے مختلف حصوں میں ان کے پیدا کردہ فتنوں اور لوگوں کی نفرت اور مظاہروں، بغاوتوں کی آگ بجھانے سے خلافت عثمانیہ عاجز آگئی۔
جب خلافت عثمانیہ قرضوں کے بوجھ تلے دب گئی تو یہودیوں نے سلطان عبد الحمید ثانی[3] کے ساتھ مذاکرات کے لیے آدمی بھیجنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے خاص امتیازی رعائتیں دینے کے بدلے رشوت پیش
[1] انظر : عبد اللّٰه تل : ’’ الأفعی الیہودیۃ في معاقل الإسلام‘‘ ص ۷۶-۷۸۔
[2] محمد الزعبی: الماسونیۃ فی العراء :ص ۱۴۷؛ خالد محمد الحاج : الکشاف الفرید: ۱/۳۷۵۔
[3] سلطان عبد الحمید ثانی ۱۲۹۳ ہجری میں تخت پر بیٹھا۔ اس وقت اس کی عمر ۳۸ برس تھی۔ اسے دیمک زدہ خلافت ِ عثمانیہ ورثہ میں ملی جو قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔اس کی حکومت ۳۱ سال رہی یہاں تک کہ اسے معزول کرکے اس کی جگہ اس کے بھائی سلطان محمد رشاد خان کو تخت پر بٹھایا گیا۔ سید عبد المؤمن أکرم : أضواء علی تاریخ توران ( ترکستان)‘ ص ۱۷۱۔