کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 587
سو تحریف قرآن کا عقیدہ وصیت کے عقیدہ کے حتمی ہونے کا نتیجہ ہے۔ جب انہوں نے اس بات کو بطور اصل کے گھڑ لیا کہ وصیت کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے ؛ اور یہ کہ ولایت علی رضی اللہ عنہ اسلام کا رکن اعظم ہے۔ اس کے بارے میں قرآن میں کوئی نص نہ ملی ؛ اور نہ ہی قرآن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کا ذکر ملا ؛ جب کہ قرآن میں نماز؛ روزہ، زکوٰۃ؛ حج اور دیگر امور کا بیان موجود ہے، جو شیعہ کے ہاں امامت سے کم تر ہیں۔ تو انہوں نے تحریف قرآن کے متعلق کہنا شروع کردیا اور کہا کہ ولایت علی قرآن میں موجود تھی ؛ لیکن صحابہ نے اسے وہاں سے نکال دیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وصی ہونے کے عقیدہ پر ہی ان کی اور ان کے بیٹوں کی شان میں غلو کا عقیدہ بھی مرتب ہوتا ہے۔ اور یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ دوسروں سے بڑھ کر امامت کے حق دار ہیں۔ اس عقیدہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے امامت کو انہی لوگوں میں محدود کردیا۔ اور یہ کہ قیامت تک امامت ان سے باہر نہیں جائے گی۔
امامت کے ان میں محدود ہونے کے عقیدہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں مہدی کا عقیدہ اختیار کرنا پڑا۔ یہ اس لیے ہوا کہ وہ امامت کو ان ائمہ کی نسل میں ہی چلا رہے ہیں۔ جب ان کا گیارھواں امام حسن عسکری انتقال کر گیا؛ تو اس کی کوئی اولاد نہیں تھی جو اس کے بعد امام بنتی۔ تو اس رسوائی سے نکلنے کا راستہ یہی ملا کہ امام مہدی کی امامت کا کہہ کر ان کے غار میں چھپ جانے کا عقیدہ گھڑ لیا۔
امام مہدی اور ان کے غار میں چھپنے کے عقیدہ پر عقیدۂ رجعت(دوبارہ نکلنے ) کا عقیدہ مرتب ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جب رافضیوں نے دیکھا کہ : امام کا چھپ جانا کوئی معنی نہیں رکھتا اور نہ ہی اس سے کوئی فائدہ حاصل ہورہا ہے ؛ تو انہوں نے کسی بھی وقت امام کے دوبارہ اس دنیا میں آنے کا عقیدہ ’’عقیدۂ رجعت ‘‘ گھڑ لیا۔ کہ امام اپنے ماننے والوں کی مدد کرنے اور دشمنوں سے بدلہ لینے کے لیے آئے گا۔ یہ عقیدۂ مہدی کی رسوائی سے نکلنے کے لیے انہوں نے ایسے کیا۔
جب خمینی نے دیکھا کہ امام مہدی کے غائب ہونے کا زمانہ بہت لمباہوگیا ہے جس کی وجہ سے ان کے نزدیک بہت سارے دینی اور دنیاوی مصلحتیں پامال ہورہی ہیں، جس کا نتیجہ آخر کار بقول خمینی یہ ہوسکتا ہے کہ شریعت کے منسوخ ہونے کا کہا جائے۔ تو خمینی نے حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس مشکل سے نجات پانے کے لیے ولایت فقیہ کا عقیدہ ایجاد کرلیا۔ اور یہ عقیدہ اس طرح ہے کہ امام غائب (جس کی غیبوبت طویل تر ہوتی جارہی ہے) کی غیبوبت میں لازمی طور پر کوئی ایسا بھی ہونا چاہیے جو رعایا کے امور نبھانے میں اس کا نائب اور قائم مقام ہو۔
ایسے اللہ تعالیٰ رافضیوں کو ان کی گمراہیوں میں ڈھیل دیتے رہے؛ جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے :
﴿قُلْ مَنْ کَانَ فِی الضَّلَالَۃِ فَلْیَمْدُدْ لَہُ الرَّحْمٰنُ مَدّاً حَتّٰی إِذَا رَأَوْا مَا یُوْعَدُوْنَ إِمَّا الْعَذَابَ وَإِمَّا السَّاعَۃَ فَسَیَعْلَمُوْنَ مَنْ ہُوَ شَرٌّ مَّکَاناً وَأَضْعَفُ جُنْدًا﴾ (مریم:۷۵)
’’کہہ دو کہ جو شخص گمراہی میں پڑا ہوا ہے اللہ اس کو آہستہ آہستہ مہلت دئیے جاتا ہے یہاں تک کہ جب