کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 583
تعالیٰ ان کا پردہ چاک کرے۔میں کہتا ہوں : ایسے ہے۔ وہ کہتے ہیں : نہیں اس سے مراد یہ ہے۔ میں تو ان کا امام ہوں جو میری اطاعت کریں۔‘‘[1]
یہ ان کے امام ہیں جو اُن پر اِن کے جھوٹ بولنے کی شکایت کررہے ہیں، اور ان کے کلام کی تاویل تقیہ پر محمول کرنے کی [شکایت کرتے ہیں ]؛ اوریہ کہ اس سے مراد وہ لیتے ہیں جو انہوں نے کہا نہیں۔
یہ لوگ اپنے ائمہ کے کلام کی اس کے معنی مقصود سے ہٹ کر تاویل کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں : ان کا مقصودایسے اور ایسے ہے؛ اور بے شک انہوں نے ایسا تقیہ کرتے ہوئے کہا ہے۔ ذیل میں ان تاویلات کے کچھ نمونے دیے جارہے ہیں :
طوسی نے روایت کیا ہے: عثمان بن عیسیٰ سے روایت ہے، وہ سماعہ سے روایت کرتا ہے، اس نے کہا ہے : میں نے ان سے پوچھا (یعنی ابو عبد اللہ سے)؛ تیمم کی کیفیت کیا ہے؟انہوں نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا اور پھر اس سے اپنے چہرے اور کہنیوں تک دونوں بازؤوں کا مسح کر لیا۔ طوسی کہتا ہے : سو چہر ہ کی اس خبر کوہم تقیہ پر محمول کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ عام لوگوں کے مذہب سے موافق ہے۔ [2]
اور الاستبصار میں ہی ہے :طوسی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، انہوں نے فرمایاہے:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتوگدھے کے گوشت اور نکاح متعہ کو حرام ٹھہرایا ہے۔‘‘
طوسی کہتاہے: اس روایت میں سبب یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اسے تقیہ پر محمول کریں،اس لیے کہ یہ عام لوگوں کے مذہب کے موافق ہے۔‘‘[3]
اور طوسی نے ہی روایت کیا ہے : ابو جعفر سے روایت ہے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے؛ وہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت کیا ہے، آپ فرماتے ہیں :
((لا جمعۃ إلا في مصر یقام فیہ الحدود۔))
’’ کوئی جمعہ نہیں ہوتا سوائے ان شہروں میں جہاں حدود قائم ہوتی ہوں۔‘‘
طوسی کہتا ہے :’’اس حدیث کا سبب تقیہ ہے، اس لیے کہ یہ عام لوگوں کی اکثریت کے مذہب کے موافق ہے۔‘‘[4]
ان کا یہ طریقہ ان تمام روایات کے ساتھ ہے جو ان کے ائمہ سے اہل سنت والجماعت کے مذہب کے موافق ان کی کتابوں میں منقول ہیں۔ اور وہ روایات جو ان کے مذہب سے ٹکراؤ رکھتی ہیں ان کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ : ’’ بے شک یہ تقیہ پر محمول ہیں۔‘‘[5]