کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 582
اور مسلمان کو اس بات کا خوف محسوس ہوکہ اگر اس نے اپنے دین کا اظہار کیا تواسے اپنی جان کا خدشہ لاحق رہے گا۔ جب کہ رافضی پورے طور پر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ تقیہ کا برتاؤ کرتے ہیں، بغیر کسی خوف کے، یااپنے عقائد کے اظہار پر کسی ضرر کے اندیشہ کے بغیر۔ ۳۔ آیت میں وارد تقیہ رخصت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے، جس کا ترک کردینا عزیمت ہے، جب کہ رافضی تقیہ کو واجب قرار دیتے ہیں۔ اور اسے اپنے دین کے اصولوں میں سے ایک اصول قراردیتے ہیں بلکہ تقیہ ان کے ہاں دین کی دس حصوں میں سے نو حصے ہے۔ اور ان کے ہاں تقیہ پر مضبوطی سے جمے رہنے، اور اس پر ترغیب دینے کے بارے میں بہت بڑے مبالغات ہیں۔ ۴۔ رافضی ہر چیز میں تقیہ کو جائز سمجھتے ہیں ؛ یہاں تک کہ عبادات میں بھی ؛ جیسے کہ نماز؛ اور روزہ وغیرہ مختلف قسم کی عبادات۔ اور یہ بات انہوں نے اپنے ائمہ کی طرف منسوب کی ہے کہ وہ عبادات میں تقیہ کیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود کہ اس نسبت میں ان ائمہ کرام کی اہانت اور ان پر تہمت ہے؛ ساتھ ہی یہ اس آیت کے خلاف بھی ہے۔ بلکہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام نصوص ؛ اور تمام انبیاء کی شریعتوں کی مخالفت ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے کتابیں نازل کیں، اوررسول مبعوث فرمائے؛ اپنی توحید کی دعوت کے لیے؛ اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک کی مخلصانہ عبادت؛ ریاکاری ؛ شرک اور لوگوں کے لیے تصنع ترک کرنے کے لیے خواہ وہ کوئی بھی ہو؛ اور بندوں کے دلوں کا ربط اللہ تعالیٰ سے قائم کرنے کے لیے۔ ۵۔ یہ آیت رافضیوں کے ہاں عقیدۂ تقیہ کے باطل ہونے پربہت بڑی دلیل ہے۔بے شک اللہ تعالیٰ نے کفار سے دوستی اور ان سے محبت رکھنے کو حرام کیا ہے۔ اور رافضی بلا ضرورت کفار سے دوستی رکھتے ہیں ؛ اور ان سے محبت کرتے ہیں۔ اوریہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ایسا کرنا ان کے دین کے اہم ترین اصولوں میں سے ہے۔ اور اس کے بغیر ان کا دین مکمل نہیں ہوتا۔ اس سے رافضیوں کے ہاں عقیدۂ تقیہ سے اسلام کی براء ت کی تاکید ہوتی ہے، بے شک یہ یہودیوں اور منافقین کے دین کی جنس ہے نہ کہ مسلمانوں کے دین کی جنس سے۔ خود ان کی کتابوں میں بھی بعض نصوص ایسی آئی ہیں جو اس عقیدہ کے باطل ہونے؛ اور ائمہ کی براء ت کی گواہی دیتی ہیں۔ جن لوگوں نے اس چیز کا اظہار کیا ہے ان میں سے : الکشی نے صیرفی سے روایت کیا ہے، وہ کہتا ہے: میں نے سنا ابو عبد اللہ علیہ السلام کہہ رہے تھے: ’’لوگ گمان کرتے ہیں میں ان کا امام ہوں۔ اللہ کی قسم ! میں ان کا امام نہیں ہوں۔ انہیں کیا ہوگیا ہے (اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرے) جب بھی میں ان پر پردہ ڈالتا ہوں ؛ یہ اس پردہ کوچاک کردیتے ہیں۔ اللہ
[1] روح المعانی ۳/ ۱۲۱۔