کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 580
﴿ لَّا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکَافِرِیْنَ أَوْلِیَائَ ﴾ (آل عمران: ۲۸) ’’مومنوں کوچاہیے کہ مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں۔‘‘ اس آیت میں تقیہ کے مشروع ہونے کی دلیل ہے ؛ اور اس کی تعریف نفس کی حفاظت، یا عزت اور مال اور دشمن کے شر سے بچاؤ کے معانی میں کی گئی ہے۔ ‘‘ دشمن کی دو قسمیں : اول : وہ جس سے دشمنی دینی اختلاف پر مبنی ہو، جیسے کافر اور مسلمان۔ دوم : جس کے ساتھ دشمنی دنیاوی اغراض پر مبنی ہو؛ جیسے مال و متاع ؛ ملک، امارت وغیرہ۔ یہاں سے تقیہ کی بھی دو قسمیں بنتی ہیں : پہلی قسم : اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ ہر وہ مومن جو کسی ایسی جگہ پھنس جائے جہاں دشمنوں کی وجہ سے اس کے لیے اپنے دین کا اظہار کرنا ناممکن ہو؛ تواس پر واجب ہوجاتا ہے کہ ایسی سر زمین کی طرف ہجرت کر جائے جہاں پر وہ اپنے دین کا اظہار کرسکتا ہو۔ اور اصل میں اس کے لیے یہ جائز ہی نہیں ہے کہ یہ انسان اسی جگہ پر باقی رہے، اور اپنے دین کو چھپائے رکھے۔ اور کمزوری کا عذر پیش کرے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی زمین بڑی وسیع ہے۔ [اسے ہجرت کرنا لازم ہے ] ہاں وہ لوگ جن کا کوئی شرعی عذر ہواور ہجرت ترک کردیں، جیسے بچے؛ عورتیں ؛ اندھے؛ قیدی؛ اور وہ لوگ جنہیں مخالف ان کو قتل کرنے، یا ان کی اولاد یا والدین کو قتل کرنے سے ڈراتے ہوں ؛اور وہ خوف محسوس کررہا ہو کہ جس چیز سے ڈراتے ہیں وہ کر گزریں گے؛ خواہ یہ قتل گردن زنی سے ہو، یا غذا کی بندش سے یا اس طرح کی کوئی اور حرکت۔ تو اس صورت میں اس کے لیے مخالف کے ساتھ رکے رہنا اور بقدر ضرورت اس کی موافقت کرناجائز ہے۔ اور اس پر واجب ہے کہ وہاں سے خروج کرنے اور دین بچا کر نکل جانے کے لیے کسی حیلہ کی تلاش میں رہے۔ اور اگر یہ ڈراوا کسی نفع کے فوت ہوجانے کا ہو، یا ایسی مشقت میں ڈالنے کا ہوجس کو برداشت کیا جاسکتا ہو، جیساکہ حبس بے جا، مگر ساتھ غذا ملتی رہے ؛ اور ایسی تھوڑی مارپیٹ جس سے جان ہلاک ہونے کا اندیشہ نہ ہو، تواس صورت میں ان کی موافقت جائز نہیں ہے۔ اور ان کے ساتھ موافقت کے جواز کی صورت میں بھی یہ جواز فقط ایک رخصت ہے، جب کہ اپنے دین کا اظہار کرنا عزیمت ہے۔اوراگر اس راہ میں وہ اپنی جان بھی دے دے تو وہ یقیناً شہید ہوگا۔ اور جو چیز اس کے رخصت ہونے پر دلالت کرتی ہے ؛ جو حضرت حسن سے روایت کیا گیا ہے، مسیلمہ کذاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو آدمیوں کوپکڑ لیا۔ ان میں سے ایک سے کہا :’’ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ؟اس نے کہا : ہاں۔ کہا : کیا تم گواہی دیتے ہوکہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟۔اس نے کہا : ہاں۔ پھر اس نے دوسرے کوبلایا۔اور کہا:’’ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ؟اس نے کہا :
[1] منہاج السنۃ ۶/۴۲۱-۴۲۵۔