کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 58
یہودیوں کی یہ سازشیں اور حکومتی اداروں میں ان کی یہ افراتفری مچانا چار سو سال سے زیادہ عرصہ تک مسلسل جاری رہیں، اوریہ سلسلہ کمال اتاترک کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ تک جاری رہا۔[1] یہودیوں نے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے لیے ان قوتوں سے کام لیا : ۱۔ ڈونمہ یہودی : ان لوگوں نے اسپانیا سے آنے کے بعد اسلام کا اظہار کیا اور عثمانی حکومت کے مختلف مناصب تک پہنچے۔ یہاں تک کہ وہ حکومت کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوگئے جس سے ان کے لیے تخریب کاریاں کرنا، اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے لیے راہ ہموار کرنا آسان ہو گیا۔ ان مشہور ڈونمی یہودیوں میں سے مدحت پاشا[2] اورکمال اتاترک وہ دو افراد ہیں جن کا خلافت عثمانیہ ختم کرنے میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ۲۔ اسلام کے خلاف حسد رکھنے والی مغربی عیسائیت : یہودیوں نے عیسائیت کی اسلام دشمنی اور حسد کو غنیمت سمجھتے ہوئے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اور انہوں نے کئی یورپی ممالک سے معاہدے کررکھے تھے، جیسے کہ : بلغاریہ، رومانیہ، نمساء، فرانس ؛ روس؛ یونان ؛ إٹلی وغیرہ۔ ان معاہدوں کا مقصد عثمانی حکومت کے خلاف جنگ کرنا تھا۔ اور انہیں امن و استقرار سے محروم رکھنا تھا۔ ۳۔ بیہودہ اور جھوٹا پروپیگنڈہ : جس کی وجہ سے خلافت عثمانیہ کی انتہائی بھیانک اور خطرناک تصویر لوگوں کے سامنے پیش کی گئی۔ یہودیوں نے ترک مسلمانوں کے خلاف انتہائی بیہودہ اور شرمناک پروپیگنڈہ کرنا شروع کردیا تھا کہ یہ لوگ سخت دل اور وحشی ہیں۔ جو
[1] مصطفی کمال ۱۲۹۹ ہجری میں یونان کے علاقہ سلانیک میں پیدا ہوا۔ یہ اصل میں ایک ترکی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور ایک حکومت ملازم علی رضا کا بیٹا تھا؛ جس کے متعلق کمال نے خود ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔ :’’ وہ ایک گمراہ افکار والا انسان تھا اور ہمیشہ دین دار لوگوں سے نبرد آزما رہتا تھا اور مغرب سے سرایت کرکے آنے والے افکار کی حمایت کرتا رہتا تھا۔ یہ ایک مترجم کی حیثیت سے ملٹری ٹرینگ اسکول میں بھرتی ہوا ‘ اورآخر کار عثمانی فوج کا برگیڈئیر بن گیا؛ پھر اسے ترقی ہوتی رہی حتی کہ اسے ۱۳۳۷ ہجری میں فلسطین میں آرمی جنرل تعینات کیا گیا۔ اسی کے ہاتھوں پر خلافت عثمانیہ کا سقوط ہوا۔ پھر اسے ماسونی یہودیوں کی مدد سے۱۳۴۱ ہجری میں سلطنت عثمانیہ کے سقوط کے بعد جمہوریہ ترکیہ کا صدر بنادیا گیا۔ د/ علی حسنین ؛ تاریخ الدولۃ العثمانیۃ : ص۳۶۳-۳۶۵۔ انظر : عبد اللہ تل : ’’ الأفعی الیہودیۃ في معاقل الإسلام‘‘ ص ۷۵۔ [2] مدحت پاشا؛ یا احمد مدحت بن حاجی حافظ اشرف آفندی ؛ عربی زبان اچھی طرح جانتا تھا۔اسے ۱۲۸۶ھ سے ۱۲۸۸ ھ تک بغداد میں گورنر مقرر کیا گیا۔ پھر اسے معزول کرکے آستانہ پر بلایا گیا، پھر تھوڑے ہی عرصہ میں اسے صدارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کردیا گیا۔ جہاں سے اس نے ۱۲۹۳ ہجری کے آخر میں عثمانی دستور جاری کیا۔ مدحت اور سلطان عبد الحمید عثمان کے نظریات ملک کی سیاست کے بارے میں یکساں نہ تھے۔ دیکھیں : االأعلام ؛ زرکلی ۷/ ۱۹۵۔ مدحت پاشا اور مصطفی کمال کا شمار مشہور ڈونمی یہودیوں میں ہوتا ہے۔ جو کہ ’’ ماسونی مجلس کانگرس ‘‘ کے ممبر تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں خلافت ِ عثمانیہ کا سقوط ہوا۔ انظر : عبد اللہ تل: ’’ الأفعی الیہودیۃ في معاقل الإسلام‘‘ ص ۷۶۔