کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 579
کا حال تو نِرا منافقین کا حال ہے۔ نہ کہ اس مجبور انسان کا حال جسے کلمہ کفر بولنے پر مجبور کردیا جائے؛ اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔ یہ مجبوری جمہورِ بنی آدم میں عام نہیں ہوسکتی، حتی کہ وہ مسلمان جوکہ قیدی ہو؛ یا کسی کافر ملک میں اکیلا ہو؛ اور اسے کوئی کلمۂ کفر کہنے پر مجبور بھی نہ کرتا ہو؛ تو وہ ایسا نہیں کہے گا۔ اور اپنی زبان سے وہ بات نہیں کہے گا جو اس کے دل میں نہیں ہے۔ اور اسے کبھی اس بات کی ضرورت ہوسکتی ہے کہ وہ کفار کے ساتھ ایسے نرمی برتے کہ لوگ سمجھیں وہ انہی میں سے ہے۔ مگر وہ اس کے ساتھ اپنی زبان سے وہ الفاظ نہیں کہے گا جو اس کے دل میں نہیں ہیں بلکہ جو کچھ اس کے دل میں ہے اسے پوشید ہ رکھے گا۔
[یعنی] جھوٹ بولنے اور [حق ] چھپانے میں فرق ہے۔ سو چھپانا [کتمان ] وہ ہے جو مومن کے جی میں ہے، اس طرح کہ وہ اس کو ظاہر کرنے میں اللہ کے ہاں معذور ہے۔ جیسا کہ آلِ فرعون کا مومن۔ جب کہ کفریہ کلام کے ساتھ بات کرنے والا؛ اس کا کوئی عذر نہیں ہے، صرف اس صورت کے کہ اسے مجبور کیا جائے۔ اور منافق کذاب کا عذر کسی بھی حال میں مقبول نہیں ہے۔
پھر وہ مومن جو اپنا ایمان چھپاتا ہو، وہ ایسے کافروں کے درمیان ہو، جو اس کا دین نہ جانتے ہوں ؛ اور اس کے ساتھ وہ لوگ اس سے محبت کرتے ہوں،او راس کی عزت کرتے ہوں۔ اس لیے کہ اس کے دل میں موجود ایمان اس چیز کو واجب کرتا ہے کہ ان کے ساتھ سچائی اور امانت داری ؛ان کے لیے خیر خواہی اور ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے۔ اگرچہ وہ ان کے دین پر ان سے موافقت نہ رکھتا ہو۔ جس طرح کہ سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام اہل مصر میں کرتے تھے حالانکہ وہ سارے کافر تھے۔ اور جیسے آل فرعون میں سے ایک آدمی اپنا ایمان چھپاتا تھا مگر اس کے ساتھ ہی وہ موسیٰ علیہ السلام کی تعظیم بھی کرتا تھا اور کہتا تھا:’’ کیا تم ایسے آدمی کو قتل کررہے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب صرف ایک اللہ ہے۔ ‘‘
رہے رافضی ؛ تو ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں رہا جس نے تقیہ کے بغیر زندگی گزاری ہو۔ اس لیے کہ جو دین اس کے دل میں ہے ؛ وہ فاسد دین ہے۔ جو اسے خیانت اور جھوٹ؛ لوگوں کے ساتھ دھوکا دہی؛ اور ان کے ساتھ برے ارادے پر ابھارتا ہے۔ اور کسی کا کوئی لحاظ نہیں رکھتے۔ اور کوئی ایسا شرترک نہیں کرتے جس کو انجام دینے پر قدرت رکھتے ہوں، مگر اسے کر گزرتے ہیں۔ اور جن لوگوں کو جانتے نہیں ؛ ان پر یہ بہت سخت نالاں رہتے ہیں۔ اگروہ یہ بات نہ جانتے ہوں کہ یہ رافضی ہے۔ ان کے چہرے پرنفاق کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں ؛ اوران کی چکنی چپڑی باتوں سے بھی۔ اس لیے آپ دیکھیں گے یہ کمزور لوگوں سے؛ او رجن کی انہیں کوئی ضرورت نہ ہو؛ ان سے؛ منافقت کا برتاؤ کرتے ہیں۔ اس کا سبب اس کے دل میں موجود وہ نفاق ہے جو اس کے دل کو کمزور کررہا ہے۔‘‘[1]
علامہ آلوسی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
[1] مسلم کتاب الإیمان /باب کون النہی عن المنکر من الإیمان و وأن الإیمان یزید و ینقص …ح: ۴۹۔