کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 578
سے کوئی ایک بھی اپنادین ظاہر نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ انہوں نے فضائل ِ صحابہ اوروہ قصائد یاد کیے ہوتے ہیں جو ان کی مدح میں اور رافضیوں کی ہجو(مذمت) میں ہیں۔ جن کے ذریعہ سے وہ اہل ِ سنت سے محبت ظاہر کرتے ہیں ؛ اور ان میں سے کوئی بھی اپنا دین ظاہر نہیں کرتا جیسا کہ مؤمنین مشرکین اور اہل ِ کتاب کے سامنے اپنے دین کوظاہر کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت پر عمل کے لحاظ سے یہ (رافضی) لوگوں میں سب سے دور ہیں۔ رہا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان :
﴿اِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقَاۃً ﴾ (آل عمران: ۲۸)
’’ ہاں اگر تم اُن (کے شر ) سے بچائو کی صورت پیدا کرو۔‘‘
امام مجاہد رحمہ اللہ اس کی تفسیر یوں فرماتے ہیں : ’’مگر تصنع کرتے ہوئے۔‘‘
اور ’’تقاۃ‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اپنی زبان سے ایسا جھوٹ بولوں ؛ جو کہ میرے دل میں نہیں ہے، بے شک ایسا کرنا منافقت ہے۔ مگر اس سے مراد یہ ہے کہ میں وہ کچھ کروں جس پر میں قدرت رکھتا ہوں۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے،بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من رأی منکم منکرًا فلیغیّرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذالک أضعف الإیمان۔)) [1]
’’جوکوئی تم میں سے برائی کی بات دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اسے اپنی زبان سے منع کرے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اسے دل میں برا جانے، اور یہ ایمان کا کم ترین درجہ ہے۔‘‘
پس مومن جب کفار اور فجار کے درمیان ہو؛ اور اسے عاجز ہونے کی وجہ سے ہاتھ سے جہاد کرنے کا موقع میسر نہ ہو، لیکن ممکن ہو توزبان سے روکے ؛ورنہ اس کو دل سے برا جانے ؛اس کے ساتھ ہی وہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ اور اپنی زبان سے وہ بات نہیں کہے گا جو کہ اس کے دل میں نہیں ہے۔ یا تو وہ اپنے دین کو ظاہر کرے گا یا اسے چھپائے گا مگر اس کے باوجود وہ ان کے پورے دین پر ان سے موافقت نہیں کرے گا بلکہ اس کا آخری درجہ یہ ہوگا کہ و ہ آل فرعون کے اس مومن انسان؛ اور فرعون کی بیوی کی طرح ہو؛ وہ (آلِ فرعون کا مومن) ان کے سارے دین پر ان سے موافقت نہیں رکھتا، مگر وہ جھوٹ بھی نہیں بولتا تھا۔اور زبان سے ایسی بات نہیں کرتا تھا جو اس کے دل میں نہ ہو۔ بلکہ وہ اپنے ایمان کو چھپاتا تھا۔ [اس سے ظاہر ہوا کہ ] دین کا چھپانا اور چیز ہے ؛ جب کہ باطل دین کا اظہار کرنا اور چیز ہے۔
اس کو اللہ تعالیٰ نے کسی کے لیے مباح نہیں کیا، سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائے، وہ بھی اس طرح کہ اس کے لیے کلمۂ کفر کا زبان سے نکالنا مباح قرار دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے منافق اور مجبور کے درمیان فرق کیا ہے۔ اور رافضیوں