کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 576
میں اسی پر کفایت کروں جو کہ قرآن میں یہودیوں پر رد آیا ہے۔ اس لیے کہ یہ آیات صاف واضح اور غیروں کے ساتھ برتاؤ کے وقت ان کے منہج ؛ جو کہ نفاق کی بنیاد پر کھڑا ہے؛ اور جس میں اعتقاد کے خلاف اظہار کیا جاتا ہے؛کے باطل ہونے پر کھلی دلیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے کئی ایک مواقع پریہودیوں کے اس فعل پر ان کی مذمت کی ہے۔ اور ان سے خبردار کیا۔
یہاں پر رد کا مرکز ومحور رافضی ہوں گے، اس لیے کہ میرا خیال ہے کہ رافضی منافقت اور دھوکا بازی میں یہودیوں سے زیادہ ماہر ہیں۔ یہودی اپنی کتابوں میں کھل کر دوسروں کے ساتھ منافقت کرنے کا کہتے ہیں اورمسلمان عوام ان کے مذہب کے باطل اورفاسد ہونے کو جانتے ہیں۔چہ جائے کہ ماہرین اورعلماء۔ (وہ توجانتے ہی ہیں ) اس لیے نفاق شرعًا اور عقلا ً مذموم ہے۔
رہے یہ لوگ (یعنی رافضی / شیعہ)؛ ان کا خطرہ یہودیوں کے خطرہ سے بہت زیاہ بڑا اور بڑھ کر ہے۔ سو یہ مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ کے وقت نفاق کو مباح قرار دیتے ہیں ؛ مگر اس کا اعتراف نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے انہوں نے ایک دوسرا نام ایجاد کرلیا ؛ جس سے انہوں نے بعض ان لوگوں پر تلبیس کی جوان کے مذہب سے واقف نہیں ہیں ؛ انہوں نے اس کا نام تقیہ رکھا۔ اور انہوں نے اس تقیہ کو اپنے دین کے اصولوں میں سے ایک اصول بنادیا ؛ اور اسے اسلام کی طرف منسوب کرنے لگے۔ اور اس طرح آیات میں اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ معانی کے خلاف تاویل کرنے لگے۔ اور اللہ اور اس کے رسول اور آل بیت پر جھوٹ بولنے لگے ؛ اور اس طرح انہوں نے اپنے اس نفاق کو اسلام سے نتھی کرنے کی کوشش کی؛ حالانکہ اسلا م اس سے بالکل بری ہے۔
[رافضیوں کا استدلال]:
وہ آیات جن سے رافضی اپنے اس فاسد عقیدہ پر استدلال کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰۃً ﴾ (آل عمران: ۲۸)
’’مومنوں کوچاہیے کہ مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اُس سے اللہ کا کچھ (عہد) نہیں ہاں اگر اس طریق سے تم اُن (کے شر ) سے بچائو کی صورت پیدا کرو۔‘‘
اس آیت سے ان کا اپنے عقیدۂ تقیہ پر استدلال کرنا ایک باطل استدلال ہے؛ جو کہ صحیح نہیں ہے۔ اس آیت میں وارد [لفظ] تقیہ رافضیوں کا تقیہ نہیں ہے،یہ اورتقیہ ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس سے پہلے کہ میں وہ فرق بیان کروں جوکہ اللہ تعالیٰ کے مباح کردہ تقیہ میں اور رافضیوں کے تقیہ میں ہے۔ ذیل میں اہل علم کے اقوال پیش کیے جارہے ہیں، جن میں اس تقیہ کا مقصود اور اس کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔
[1] تفسیر ابن کثیر ۱/ ۵۶۷۔