کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 571
دل میں بغض اور نفرت کو چھپائے ہیں۔ تلمود میں آیا ہے : ’’یہودی کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے مخالف کے ساتھ مجاملت سے کام لے، تاکہ اس کے شر سے محفوظ رہے اور اس کے لیے شر اور اذیت کو پوشیدہ رکھے۔‘‘ ایک دوسری عبارت میں ہے : ’’ بے شک منافقت جائز ہے، اور بے شک انسان (یعنی یہودی) اس کے لیے ممکن ہے کہ وہ کافر کے ساتھ مؤدب رہے اور اس سے محبت کا جھوٹا دعویٰ کرے۔‘‘ نیز رافضیوں کی کتابوں میں آیاہے : ’’ظاہری طور پر ان کے ساتھ میل جول رکھو اور خفیہ طور پر ان کی مخالفت کرو، خصوصاً جب کہ حکومت بھی بچوں والی(یعنی بیوقوف) ہو۔‘‘ ۲۔ یہودیوں کا اسلوب ِنفاق ان کے الفاظ اور عبارات کا ایک کھیل تماشاہے ؛ اور کلمات میں لفظی اورمعنوی تحریف ہے۔ تلمود میں آیا ہے : ’’بے شک ان کا ایک حاخام غیر یہودی کو سلام ان الفاظ میں کرتا تھا: ’’سلام تیرے ساتھ ہو، اور اس سے وہ نیت اپنے استاذ کی کرتا تھا؛ نہ کہ غیر یہودی کو سلام کرنے کی۔‘‘ اور یہودی جب مسلمانوں کوسلام کرتے تھے تو کہتے تھے: ’’السام علیکم ‘‘ یعنی تم پر موت ہو۔ ایسے ہی رافضی بھی الفاظ سے کھیلتے ہیں۔ اور ان کی تاویل صحیح معانی سے ہٹ کر کرتے ہیں۔ روایت کیا گیا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک اہل سنت سے ملا، تو ان سے کہا: ’’ شاید تم گمان کرتے ہو کہ میرے متعلق بھی رافضی ہونے کا کہا گیا ہے : بے شک ابو بکر وعمر عثمان و علی جس نے ایک سے دشمنی رکھی ؛ وہ کافر ہے۔ اور ایک سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لیتے ہیں۔ اورانہوں نے یہ بھی روایت کیا ہے کہ شیطان الطاق (یہ ان میں سب سے بڑھ کر خبیث ہے) ایک خارجی سے ملا؛ تو خارجی نے اس سے کہا : ’’ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا، یا تم حضرت علی سے براء ت کا اظہار کرو۔ تو کہا: میں علی سے اور عثمان سے بری ہوں۔‘‘ اس سے مراد یہ لی ہے کہ : میں علی کے اصحاب میں سے ہوں، اور عثمان سے بری ہوں۔‘‘ ۳۔ یہودی نفاق میں جس اسلوب پر چلتے ہیں،اس میں سے ایک : اپنے مخالفین کے ساتھ دھوکے بازی سے پیش آنا ہے۔ یہ اس طرح کہ ان کی خوشیوں اور غموں میں شرکت کی جائے۔ جیسے کہ ان کی عیدوں میں شریک ہونا؛ ان کے بیماروں کی عیادت کرنا ؛ اور ان کے جنازوں میں شریک ہونا۔ تلمود میں آیاہے : ’’ جب تم کسی گاؤں میں داخل ہو، اور وہاں کے رہنے والے عید منارہے ہوں ؛ تم پر واجب ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ اپنی شراکت ظاہر کرو،اور ان بہت بڑی خوشی کا اظہار کرو، تاکہ تم اپنے بغض کو چھپا سکو۔‘‘
[1] صحیح البخاری ،کتاب التفسیر،باب: وأنذر عشیرتک الأقربین … ح: ۴۷۷۰۔