کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 570
اس وجہ سے انبیاء کرام علیہم السلام لوگوں کوان کی بڑی محفلوں اورمجلسوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیا کرتے تھے۔یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں،جن کی طرف یہودی اپنے دین کو منسوب کرتے ہیں، وہ فرعون کواور اس کی قوم کو ان کی بڑی محفل میں،اور ان کی عید کے دن ان کے بڑے اجتماع میں زینت کے دن دعوت دے رہے ہیں۔ [فرمان ِ الٰہی ہے]:
﴿قَالَ مَوْعِدُکُمْ یَوْمُ الزِّیْنَۃِ وَأَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًی﴾ (طہ: ۵۹)
’’ موسیٰ نے کہا کہ آپ (کے مقابلے) کے لیے عید کا دن (مقرر کیا جاتا ہے) اور یہ کہ لوگ اس دن چاشت کے وقت اکٹھے ہو جائیں۔‘‘
اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا کی پہاڑی پر چڑھتے ہیں، اور قریش کے اہم ترین لوگوں کو آواز دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب سارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوجاتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان تک اللہ کی دعوت پہنچاتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : جب یہ آیت نازل ہوئی :
﴿وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ﴾ (الشعراء:۲۱۴)
’’ اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر ائیے۔‘‘
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئے اور آواز لگانے لگے: ’’اے بنی فہر؛ اے بنو عدی۔‘‘
[آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی تمام اہم شاخوں کو بلایا] جب سارے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوگئے ؛ اور جو کوئی خود نہیں نکل سکا، اس نے آدمی بھیجا تاکہ دیکھے کہ کیا معاملہ ہے۔ سو ابو لہب آیا؛ اور قریش بھی آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم دیکھتے ہو اگر میں تم سے کہوں کہ اس وادی کے پیچھے گھوڑے سوار لشکر تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے، کیا تم میری بات کی تصدیق کروگے؟کہنے لگے : ہاں۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سچائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں آزمایا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں ایک سخت عذاب سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔‘‘ [1]
اگر یہودی اور رافضی جانتے ہیں کہ ان کا دین صحیح ہے۔ توپھر اس کی طرف دعوت کیوں نہیں دیتے، اور لوگوں کوسامنے اس کو پیش کیوں نہیں کرتے تاکہ لوگوں میں یہ دین پھیل جائے جیسا کہ انبیاء کرام علیہم الصلواۃ و السلام کرتے رہے ہیں۔
ایسے ہی یہودی اور رافضی غیروں کے ساتھ برتاؤ کے اسلوب نفاق اور تقیہ میں بھی متفق ہیں۔
وہ اسلوب جن میں وہ آپس میں اتفاق رکھتے ہیں ؛ ان میں سے :
۱۔ یہودیوں اور رافضیوں میں سے ہر ایک کا اپنے مخالفین سے محبت اور دوستی کا اظہار ؛ حالانکہ وہ ان کے لیے اپنے
[1] الکلینی : أصول الکافی ۲/۲۱۸۔
[2] مصباح الہدایۃ ص ۱۵۴۔