کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 57
سنبھالادینے کی کوشش کرے گا، پھر یہی لوگ دوسرے روپ میں سامنے آکر قرضوں کی پیش کش کرتے ہیں، اور جب قرض لیا جاتا ہے توپھر ایسی شرائط اور اتنا سود لگادیتے ہیں کہ اس لعنت کے بوجھ سے چھٹکارا پانا مشکل ہوجاتا ہے (مترجم)
ثالثاً : …ماسونی یہودیوں کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ: [1]
اوراس کے نتیجہ میں مسلمانوں میں پیدا ہونے والا تفرقہ۔
یہودیوں نے یہ بات اچھی طرح جان لی تھی کہ مسلمانوں کی قوت کا مصدر خلافت اسلامیہ کے سائے میں ایک قیادت کے نیچے جمع ہونا ہے۔ اس لیے انہوں نے خلفاء راشدین کے دور سے ہی خلافت اسلامیہ کو ختم کرنے کا پکا ارادہ کرلیا تھا۔ یہاں تک کہ عثمانی خلافت کے دور میں ان کی خواہش پوری ہوگئی۔
خلافت عثمانیہ کے خلاف یہودی سازشیں سلطان مراد ثانی[2]کے دور میں شروع ہوئیں۔ اور اس کے بعد سلطان عظیم محمد الفاتح[3] کے دور میں جسے اس کے یہودی طبیب یعقوب پاشا نے دھوکے سے زہر دے دیاتھا۔اور یہ بھی ثابت ہے کہ سلطان سلیمان قانونی[4]اور اس کے چھوٹے پوتے ’’نور بانو‘‘ یہودی عورت کی سازشوں کا شکار ہوئے۔
[1] خلافت عثمانیہ کی بھی دوسری کئی حکومتوں کی طرح کئی ایک خامیاں بھی تھیں اور خوبیاں بھی۔ ان کی خوبیوں میں سے یہ تھا کہ خلافت عثمانیہ میں پوری امت اسلامیہ ایک ہی قیادت کے جھنڈے تلے جمع تھے۔ اور اپنے آخری دور میں کمزور ہونے کے باوجود خلافت سے اس کے دشمنان یہود اور نصاریٰ خوفزدہ رہتے تھے۔ اور اس خلافت کی خامیوں میں سے ایک بڑی خامی یہ تھی کی صوفیت پرستی اور بدعات کی بے جا و بے موقع حمایت نے اس جسم ِ خلافت کو دیمک زدہ کردیا تھا۔ نہ صرف یہ ؛ بلکہ آخری کچھ خلفاء بھی محض صوفی طریق کار کے پابند اور متوالے تھے۔ جب کسی قوم میں صوفیت پروان چڑھتی ہے تو ان میں انتظامی صلاحیتیں اور دیگر امور بہت کمزور ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ دو مختلف مزاج ہیں۔ خلافت ِ عثمانیہ کو عصر رواں میں یہودی سازشیں بیان کرنے کے لیے ہم نے بطور مثال اس لیے اختیار کیا ہے کہ اس خلافت کے سقوط سے مسلمانوں کی وحدت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اور چھوٹے چھوٹے ممالک اور نظاموں اور گروہوں میں بٹ کر رہ گئے۔ جس پر ہر غیرت مند مسلمان کو افسوس ہو رہا ہے۔ اگر چہ ہم موجودہ دور میں ان خلفاء کی اندھی تقدیس اور بزرگی نہیں بیان کرتے۔ اس لیے کہ ان کے اصل منہج ِ اسلام سے ہٹ جانے اور صوفیت اختیار کرنے کی وجہ سے کئی ایک برائیاں پیدا ہوگئیں تھیں ‘ اور ہمارا یہ بھی ایمان و یقین ہے کہ یہودیوں کے ان پر مسلط ہونے کی ایک وجہ ان کی یہی عقائد کی کمزوریاں تھے۔
[2] سلطان مراد خان عثمانی بن محمد خان ۸۳۴ ہجری میں مسند خلافت پر متمکن ہوا۔ اس وقت اس کی عمراٹھارہ سال تھی۔ اس کے عہد میں ملک میں انقلاب برپا ہوا۔ اس کی جگہ پر اس کا بیٹا محمد خان الفاتح ۱۴ سال کی عمر میں اس کا نائب بنا۔ اس نے خودروم کی سر زمین پر عثمانی لشکر کی قیادت کی؛ یہاں تک کہ ان کا قلع قمع کردیا ؛ اور اللہ تعالیٰ نے اسے فتح و کامرانی سے نوازا۔ ۴۹ سال کی عمر میں انتقال ہوا ‘ ان کا دور خلافت ۳۱ سال رہا۔ سید عبد المؤمن أکرم : أضواء علی تاریخ توران ( ترکستان)‘ ص ۱۷۱۔
[3] مراد خان عثمانی کے بعد اس کا بیٹا سلطان عظیم محمد الفاتح ۸۵۵ ہجری میں تخت نشین ہوا۔ اس وقت اس کی عمر ۲۲ سال تھی۔ اس نے پچاس دن تک استنبول کا محاصرہ کیا۔ پھر ۸۵۷ ہجری میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ سات زبانوں میں گفتگو کرتا تھا۔ انجینئرنگ کا ماہر تھا۔ ۵۳ سال کی عمر میں انتقال ہوا ؛ اور جامع استنبول میں تدفین ہوئی۔ ان کا عرصہ حکومت ۳۱ سال رہا۔ سید عبدالمؤمن أکرم : أضواء علی تاریخ توران ( ترکستان)‘ ص ۱۷۱۔
[4] سلطان سلیمان قانونی بن سلیم ۹۲۶ ہجری میں عرش ِ حکومت پر متمکن ہوا۔ اس وقت اس کی عمر ۲۶ سال تھی۔ اسی نے ملک کے قوانین اور نظام وضع کیے ‘ اسی لیے اسے سلیمان قانونی بھی کہا جاتا ہے۔ ۷۴ سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ اس کی حکومت ۴۸ سال رہی۔ سید عبد المؤمن أکرم : أضواء علی تاریخ توران ( ترکستان)‘ ص ۱۷۱۔