کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 569
’’تم اپنے دین کے بارے میں ڈر کر رہو اور اسے تقیہ سے چھپاؤ ؛ بے شک جو انسان تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی ایمان نہیں ہے۔‘‘[1]
خمینی اپنے ماننے والوں کو اپنی کفر و نفاق اور الحاد سے بھری ہوئی کتاب ’’مصباح الہدایۃ إلی الخلافۃ والولایۃ‘‘ کے آخر میں وصیت کرتا ہے کہ’’ اس کتاب کے اسرار کو نشر نہ کیا جائے، وہ کہتا ہے :
’’اے میرے روحانی دوست ! تمہیں اس اللہ کا واسطہ ہے جو دنیا میں اور آخرت میں تیر ا مدد گار ہے کہ اس کتاب کے رازغیروں کے لیے افشاں نہ کرنا اور نہ ہی نا مناسب جگہ پر اس کا اظہار کرنا۔ اس لیے کہ باطن ِ شریعت کا علم نوامیس إلٰہیہ اور اسرار ربوبیت میں سے ہے۔ اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے غیروں کے ہاتھوں اور نظروں سے چھپا کردور رکھا جائے تاکہ وہ اس کے افکار کی گہرائیوں میں غور نہ کرسکیں۔‘‘ [2]
سو ان لوگوں کو اس بات کا احساس ہونا کہ ان کا دین فاسد ہے، انہیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اس مبداء (تقیہ و نفاق) کی طرف رجوع کریں۔ اگر ایسا نہیں ہے ؛اور ان کا دین اور عقیدہ صحیح اوردرست ہے تو وہ کون سی بات ہے جس سے یہودی اور رافضی ڈرتے ہیں کہ لوگوں کواس کا علم نہ ہوجائے، اس لیے کہ صحیح دین کے لوگوں کے درمیان نشر ہونے سے؛ اور اس کی طرف دعوت دینے سے عزت اور رفعت بڑھتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرم علیہم السلام کو مبعوث فرمایا کہ وہ لوگوں کو اس کے دین کی طرف دعوت دیں۔ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتے ہیں :
﴿ اِذْہَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْکَ بِاٰیٰتِیْ وَ لَا تَنِیَا فِیْ ذِکْرِیْ o اِذْہَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی o فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی ﴾ (طہ: ۴۲۔ ۴۴)
’’ تو تم اور تمہارا بھائی دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ اور میری یاد میں سُستی نہ کرنا۔ دونوں فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ سرکش ہو رہا ہے۔ اور اُس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے۔‘‘
اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دین کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا،فرمایا:
﴿وَادْعُ إِلٰی رَبِّکَ اِنَّکَ لَعَلٰی ہُدًی مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ (الحج: ۶۷)
’’ا ور آپ(لوگوں کو) اپنے رب کی طرف بلاتے ہو بیشک آپ سیدھے رستے پر ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ (الحجر:۹۴)
’’ پس جو حکم آپ کو (اللہ کی طرف سے) ملا ہے وہ (لوگوں کو) سنا دو اور مشرکوں کا (ذرا) خیال نہ کرو۔‘‘
[1] الصراع بین الاسلام و الوثنیہ :ص ۴۹۴-۴۹۶۔
[2] د: روھلنج : الکنزالمرصود ص ۷۵۔