کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 568
کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ اور ان کی قوت کے سامنے کچھ جگہوں کے لوگ ایک مختصر سے وقت کے لیے جھک گئے لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ اہل سنت اور غیر اہل سنت سے ڈرتے ہی رہتے ہیں۔ اور آج تک یہ ان لوگوں سے منافقت اور خوشامدی کا معاملہ کرتے رہے ہیں۔ نیز ان لوگوں سے اپنے ملک کی بنیادیں قائم رکھنے کے لیے اور حکومت کے ان کے ہاتھوں میں باقی رہنے کے لیے باقی اقوام سے مدد حاصل کرتے رہے ہیں۔ اور کبھی بھی یہ لوگ اہل سنت یا غیر اہل سنت سے مستغنی نہیں ہوسکے کہ خود اپنے بل بوتے پر اپنے ملک کو قائم رکھ سکیں، اور حکومت ان کے ہاتھوں میں باقی رہے۔ کسی بھی زمانے میں ایسا نہیں ہوا بلکہ یہ ہمیشہ ہمیشہ ہی اپنے تمام امور میں خواہ وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی؛ دوسروں کی مدد و حمایت کے محتاج رہے ہیں، کسی بھی معاملہ میں کبھی خود مختار و خود کفیل نہیں رہے۔اسی وجہ سے انہیں ہمیشہ ہمیشہ تقیہ یعنی منافقت کی ضرورت رہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انہیں اس پستی؛ ذلت اور رسوائی کا سامنا نہ ہوتا جیساکہ یہود کو ان چیزوں کا سامنا ہے۔ جب وہ اس تقیہ اور منافقت کو اپنی ضرورت بنائے ہوئے ہیں، تو اللہ تعالیٰ جو اصل میں سب کا حقیقی معاون اور حمایتی ہے ؛ اس تقیہ اور منافقت پر راضی نہیں ہوتا؛ اور نہ ہی یہ لوگ اس کی پناہ میں آسکتے ہیں۔‘‘ اور نہ ہی کوئی ایسا عنصر موجود ہے جس کی وجہ سے وہ اس طرف مضطر ہوں بلکہ وہ جس چیز کی وجہ سے وہ اس طرف جھکتے ہیں، وہ ان کی ذلالت اور بزدلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت رافضیوں کے اس تقیہ پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ انتہائی ذلت والا نفاق ہے۔ بس یہودی اور رافضی اس نفاق اور تقیہ میں دونوں ہی برابر ہیں۔[1] دوسرا سبب :…یہودی اور رافضی جن اسباب کی بنا پرتقیہ اور نفاق کا التزام کرتے ہیں ؛ ان اسباب میں سے ایک یہودیوں اور رافضیوں کے عقائد کا فساد ہے۔ یہودی اور رافضی دونوں یہ بات جانتے ہیں کہ اگر لوگوں کو ان کے ان عقائد کا پتہ چل گیا تو ان کے لیے اور ان کے دین و مذہب کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا ہوجائے گا، اس لیے کہ ان کے دین اور عقیدہ میں جو فساد ہے، تما م شرائع، عقول ِ سلیمہ اور فطرت ان کا انکار کرتی ہے۔ یہی وہ اہم سبب ہے جس کی وجہ سے یہود اور رافضہ اپنے ماننے والوں کو ان کے مخالفین کے سامنے کھل کر اپنے دین کا اظہار کرنے سے منع کرتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ نفاق اور تقیہ برتنے کی وصیت کرتے ہیں۔ ایک بڑا حاخام یہودی کہتا ہے : ’’ یہودیوں پر لازم ہوتا ہے کہ اپنے حقیقی قصد کا اظہار نہ کرے، یہاں تک کہ باقی امتوں کے سامنے اپنے لادین دنیا داراور ملحد ظاہر کریں۔‘‘[2] ایسے ہی رافضی اپنے ایک امام سے روایت کرتے ہیں :
[1] عبد اللہ قصیمی رحمہ اللہ کی مذکورہ کتاب جس سے واقعہ نقل کیا جارہا ہے وہ فلسطین کی سر زمین پر اسرائیلی ریاست سے پہلے کی تالیف ہے۔ اب جب کہ ظاہری طور پر ان کی ریاست بھی قائم ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود انتہائی خوف و حراس ، قلق اور بے چینی ، اور پریشان حالی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اندرونی طور پر بہت ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ وہ دوسرے کئی بڑے ممالک کی چاپلوسی اور خدمت میں لگے رہتے ہیں تاکہ وہ مسلمانوں کے خلاف ان کا ساتھ دیں۔ بہر حال جو بھی ہو، خواہ ان کی ذلت مسلمانوں کے سامنے ہو، یا عیسائیوں اور کیمونیسٹوں کے سامنے ؛ ذلت و رسوائی ہر صورت میں ان پر مسلط ہے۔ اور ان کو اپنا سر خود اٹھانے کی سکت حاصل نہیں ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ [2] بخاری کتاب الجہاد/ باب قتال الیہود (۲۹۲۶)۔