کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 565
میں ان کی مخالفت کی۔ اور ان کو ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دی۔ اورآپ پر ایسا بھی وقت گزرا جب آپ کے ساتھ اس دین پر سوائے ایک یا دو آدمیوں کے کوئی بھی نہیں تھا۔ حتی کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی نصرت کی ؛ اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت دی؛ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مہاجرین و انصار ساتھیوں سے مل کر قریش کے متکبرین اور سرکشوں ؛ اور کافر جماعتوں یہود اور منافقین سے جہاد کرنے لگے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورا ن کے اصحاب کے لیے ان تمام جماعتوں پر نصرت کو پورا کردیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ نے ان معرکوں اورغزوات میں شجاعت و بسالت کے مثالی نمونے پیش کیے، تاکہ بت پرستی کو ختم کیا جائے اور ہمیشہ رہنے والا کلمہء توحید ’’لا إلہ إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰہ ‘‘ سر بلند ہو۔ سو رافضیوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت کی طرف تقیہ منسوب کرنا بہت بڑا بہتان ہے۔ جس کی غرض صرف اپنے اس فاسد عقیدہ پر دلیل پیش کرنا ہے جوکہ نفاق،دھوکے بازی؛ اور اختراع پر قائم ہے۔ اس پر میں اس بحث کوختم کرتا ہوں اس کے بعد کہ میں نے رافضیوں کے ہاں عقیدۂ تقیہ کے تمام اہم پہلوؤں پر ان کی کتابوں میں موجود روایات؛ اور ان کے ثقہ علماء کے اقوال کی بنا پر نقدو جرح کی۔ [اب کسی مسلمان پر رافضیوں کے عزائم اورعقائد مخفی نہیں رہنا چاہیے۔ اور نہ ہی اہل بیت سے محبت کے جھوٹے دعووں کی آڑ میں اپنے ایمان و عقیدہ پر ڈاکہ زنی کا موقع دینا چاہیے]۔ مترجم تیسری بحث :…تقیہ اور نفاق کے استعمال میں وجوہِ مشابہت ان دو نوں مناہج میں یہود اور رافضہ کئی لحاظ سے آپس میں متفق ہیں۔ خواہ یہ اسباب کے لحاظ سے ہو، یا ان میں ہر ایک کو اپنے مخالف کے ساتھ اس حرکت پر ابھارنے والی وجوہات کی بنا پر، یا اپنے اسلوب او رطریقہ کار کے لحاظ سے ہوں جس پر وہ اس منہج کو تطبیق دینے کے لیے عمل کرتے ہیں۔ یا پھر اس کے نتائج کے اعتبار سے ہو: یہودیوں اور رافضیوں کو اپنے مخالفین کے ساتھ اس دھوکا اور مکر و نفاق کی راہ پر لانے والے اسباب؛ اس کو ہم (اختصار کے لیے) دو اسباب میں منحصر کرتے ہیں : پہلا سبب :…یہ کہ یہود اور رافضہ میں سے ہر ایک پر اللہ تعالیٰ نے ذلت اور رسوائی مسلط کردی ہے۔ مختلف زمانوں اور مکانوں میں زمانہ اور جگہ کے اختلاف کے باوجود یہ انتہائی ذلت اور رسوائی کا سامنا کرتے رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ یہود کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ﴿وَ ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ وَ بَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتَلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ﴾ (البقرۃ:۶۱)
[1] اس کے لیے ’’دثار‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ؛ دثار اس مخملی کپڑے کو کہتے ہیں جو سر پر لیا جائے۔ترجمہ معنوی ہے۔ [2] أمالی الطوسي ص: ۲۲۹۔ [3] أصول الکافی ۲/ ۲۲۰۔ [4] بحار الأنوار ۲۴/ ۴۷۔