کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 563
حقیقت میں تو میں نہیں جانتا کہ ان کے اور منافقین کے درمیان کیا فرق ہے ؟منافقین بھی نماز پڑھتے تھے، اور مسلمانوں کے سامنے نیک اعمال ظاہر کرتے تھے ؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُواْ إِلَی الصَّلَاۃِ قَامُواْ کُسَالٰی یُرَآؤُوْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ (النساء: ۱۴۲)
’’منافق (ان چالوں سے اپنے نزدیک) اللہ کو دھوکا دیتے ہیں (یہ اُس کو کیا دھوکا دیں گے) وہ انہیں دھوکے میں ڈالنے والا ہے۔ اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر (صرف) لوگوں کو دکھانے کے لیے اور اللہ کو یاد ہی نہیں کرتے مگر بہت کم۔‘‘
لیکن یہ نمازیں ان کونفع نہ دے سکیں ؛ کیونکہ ان میں اخلاص نہیں تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال کے قبول ہونے کی شرطوں میں سے ہے : اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَمَنْ کَانَ یَرْجُو لِقَائَ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ أَحَدًا﴾ (الکہف:۱۱۰)
’’ تو جو شخص اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘
رافضیوں کے اعمال میں یہ دونوں شرطیں مفقود ہوتی ہیں۔ ان کی عبادت دو باتوں سے خالی نہیں ہوتی : یا تو وہ بدعت، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد سنت کے خلاف ہوتی ہے۔ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی شرط مفقود ہوئی۔
یا تو وہ عبادت صحیح ہوتی ہے، اورجس پر عام مسلمان ہیں اس طریقہ کے مطابق ہوتی ہے ؛ بس وہ یہ عبادت نہیں ادا کرتے مگر تقیہ کرتے ہوئے ؛ اور ان (اہل سنت) کی دلجوئی کے لیے۔ اس میں اخلاص کی شرط مفقود ہے۔
یہ ان کے اس من گھڑت اصول کا نتیجہ ہے :’’ بے شک حق اہل ِ سنت کی مخالفت میں ہے۔‘‘ پھر انہوں نے اپنے مذہب کی بنیادیں اس فاسد قاعدہ پر کھڑی کی ہیں۔
تقیہ استعمال کرنے کے مواقع :
یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ تقیہ اس وقت ہوتا ہے جب دین، یا جان یا مال پر خوف محسوس ہو، جیسا کہ تقیہ کی تعریف میں ان کے علماء کے اقوال اس پردلالت کرتے ہیں۔ برقی نے ابو جعفر سے روایت کیا ہے : وہ کہتا ہے:
’’ بے شک تقیہ اس وجہ سے جائزہے کہ اس سے خون کی حفاظت کی جائے، جب معاملہ خون لینے تک پہنچ جائے تو پھر کوئی تقیہ نہیں ہے۔‘‘[1]
[1] من لا یحضرہ الفقیہ ۱/ ۲۶۵۔
[2] شک کا دن وہ دن ہے جس میں رمضان کا چاند نظر آنے یا نہ آنے کے بارے میں شک ہو۔
[3] الصراط المستقیم إلی مستحقي التقدیم ۳/ ۷۳۔
[4] أصول الکافي ۲/ ۲۱۹۔
[5] الأصول الأصلیۃ والقواعد الشرعیۃ ص/۳۱۹۔