کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 562
تقیہ کرتے ہوئے، جان بچانے کے لیے (بطور مدارت ) کے نماز پڑھ لو۔‘‘[1]
صادق سے روایت کرتے ہیں کہ : وہ شک کے دن[2] ابوالعباس کے پاس گئے۔ آپ دوپہر کا کھانا کھارہے تھے۔ تو انہوں نے کہا : یہ تیرے دنوں میں سے نہیں ہے۔ تو صادق نے کہا : میرا روزہ تو فقط آپ کا روز ہ ہے،اور میرا افطار بھی آپ کا افطار ہے۔ انہوں نے کہا : قریب ہو جاؤ۔ میں قریب ہوا،اور کھانا کھا یا۔ اور اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ وہ دن رمضان کا تھا۔‘‘[3]
کلینی نے ہشام الکندی سے روایت کیا ہے، وہ کہتا ہے : میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے سنا وہ کہہ رہے تھے:
’’خبردارکہ تم کوئی ایسا کام کروجس کی وجہ سے وہ ہمیں عار دلائیں۔ بے شک برا بیٹا اپنی حرکتوں سے والد کو عار دلاتا ہے۔ جن کی طرف تم کٹ گئے ہو، ان کے لیے زینت بن جاؤ، ان کے لیے برائی نہ بنو۔ ان کی مجلسوں میں نمازپڑھو؛ اوران کے مریضوں کی عیادت کرو۔
اوران کے جنازوں میں شرکت کرو،وہ کسی خیر کے کام پر تم سے سبقت نہ لے جائیں۔تم اس کے ان سے زیادہ حق دار ہو۔ اور اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ کی بندگی کسی چیز سے نہیں کی گئی جو اس کے ہاں پوشیدگی( الخبء ) سے بڑھ کر پسندیدہ ہو۔ میں نے کہا : پوشیدگی( الخبء )کیا ہے؟ فرمایا: ’’ تقیہ۔‘‘ [4]
اور ان کے ہاں ہر چیزمیں تقیہ ہے، یہاں تک کہ قسم میں بھی۔ رافضی کے لیے جائز ہے کہ وہ جھوٹی قسم اٹھائے، اس پر اس کا کوئی کفارہ نہیں ہوگا اورنہ ہی قسم ٹوٹے گی۔
ابو عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا ہے :
’’دارتقیہ [تقیہ کی جگہ ] تقیہ کرنا واجب ہے۔ نہ ہی قسم ٹوٹے گی، اور نہ ہی اس پر کفارہ ہوگا، جس نے تقیہ سے قسم توڑی۔ اس طرح وہ اپنی ذات کا ظلم سے دفاع کرے گا۔‘‘[5]
رافضیوں کے ہاں منافقت کا دائرہ ایسے وسیع ہوتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ تمام کو بھی شامل ہوجاتا ہے، جیسے نماز؛ روزہ اور ان کے علاوہ دوسرے فرائض۔ پس ان کی نمازیں اور ان کے روزے اور عبادات جن میں وہ مسلمانوں کی موافقت کرتے ہیں، بے شک وہ ان کو منافقت سے دھوکا دینے کے لیے ادا کرتے ہیں۔ اور ایسے ہی مسلمانوں کے ساتھ معاملات بھی منافقت پر مبنی ہوتے ہیں۔یہاں تک جھوٹی قسم کو بھی مباح سمجھتے ہیں۔ اور وہ نہیں سمجھتے کہ وہ اس قسم کو توڑ دیں گے۔ [یا اس کے خلاف کریں گے] جب کہ اس کا ہدف مسلمانوں کو دھوکا دینا ہو۔
[1] مجموع الفتاویٰ ۲/ ۲۸۰-۲۸۱۔
[2] المحاسن ص: ۲۵۹۔
[3] من لا یحضرہ الفقیہ ۱/ ۲۶۶۔