کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 561
نہ ہی ان کا عقل ہے، اور نہ ہی کوئی دلیل ؛ اور نہ ہی صحیح دین، اورنہ ہی کامیاب دنیا۔وہ نہ ہی نماز جمعہ پڑھتے ہیں اور نہ ہی جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ اورنہ ہی مسلمان حکمرانوں کے ساتھ مل کر کافروں کے ساتھ جہاد کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ اورنہ ہی ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے کسی حکم کو مانتے ہیں۔اس لیے کہ ان لوگوں کا اعتقاد ہے کہ یہ امور امام معصوم کے علاوہ کسی کے پیچھے جائز نہیں ہیں۔ … یہاں تک کہ آپ فرماتے ہیں : اس سے واضح ہوتا ہے کہ تمام خواہشات کے پجاری فرقوں میں یہ سب سے برے ہیں۔اور خوارج سے زیادہ قتال کے حق دار ہیں۔ یہی وہ سبب ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں میں مشہور ہے کہ اہل بدعت رافضی ہی ہیں۔ چونکہ عام لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ سنی کا مخالف فقط رافضی / شیعہ ہی ہوتا ہے۔ اس لیے کہ تمام بدعتی فرقوں میں سے بڑھ کر سنت نبوی ؛ اور شریعت دین کی مخالفت کرنے والے ہیں۔‘‘[1]
اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کے عقائد میں ان سے موافقات کا جو اظہار کرتے ہیں،اور ان کے احکام کا التزام کرتے ہیں (مانتے ہیں )؛ اوران سے پیارو محبت کا اظہار کرتے ہیں ؛ یہ فقط مسلمانوں کودھوکا دینے اور منافقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
رافضیوں کا ایمان ہے کہ ہر چیز میں تقیہ کرنا جائز ہے۔ البرقی نے ابو جعفر صادق سے روایت کیا ہے، بے شک انہوں نے کہا ہے :
’’ ہر اس چیز میں تقیہ کرنا جس کے لیے ابن آدم مجبور ہو، اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے۔‘‘[2]
اس وجہ سے وہ عبادات تک میں تقیہ کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ صدوق نے ابو عبد اللہ سے روایت کیا ہے، بے شک انہوں نے کہا ہے :
’’ تم میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنے وقت میں نماز پڑھتا ہو، پھر ان لوگوں (اہل سنت) کے ساتھ تقیہ کرتے ہوئے نماز پڑھے ؛ اوروہ وضو سے ہو، مگر اللہ تعالیٰ اس کے لیے پچیس نمازوں کا اجر لکھ دیتے ہیں، سو اس میں رغبت رکھو۔‘‘[3]
صدوق نے کہا ہے : میرے باپ نے مجھے لکھے ہوئے ایک خط میں مجھ سے کہا ہے :
’’دو آدمیوں کے علاوہ کسی کے پیچھے ہر گز نماز نہ پڑھنا ؛ ایک وہ آدمی جس کے دین اور تقویٰ پر تمہیں یقین ہو۔ اوردوسرا وہ آدمی جس کی تلوار، اس کی طاقت اور دین میں سختی سے بچنا چاہتے ہو۔ اور اس کے پیچھے
[1] نظری مسائل وہ ہیں جن میں قیاس کیا جاسکتا ہو۔
[2] الإیقاظ من الہجعۃ في إثبات الرجعۃ ص:۷۰۔
[3] مصباح الظلم ص: ۴۱-۴۲؛ بواسطۃ احسان الٰہی ظہیر : الرد علی الدکتور عبد الواحد وافی ص: ۱۷۴۔