کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 56
غزالی صاحب کہتے ہیں :
’’ ان کے ظاہر سے تاویل کرنے کے بارے میں کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ لوگ جب مخلوق خدا کو قرآن و سنت سے دور کرنے میں عاجز آگئے تو انہوں نیحقیقت کواپنی طرف سے من گھڑت کہاوتوں میں تبدیل کرنا شروع کردیا۔ اس کا مقصد شریعت کے ساتھ محبت کے اظہار میں اس کو باطل کرنا ثابت کرنا تھا۔اگر وہ کھل کر اس کے انکار کا اعلان کرتے، اور شریعت کو صاف طور پر جھٹلاتے، اور اس کی موالات (محبت و دوستی ) کا اظہار نہ کرتے تو سب سے پہلے قتل کیے جانے والے لوگوں میں سے یہی ہوتے۔ ‘‘[1]
یہودیوں کی مؤثراور بھر پور سازشیں جاری رہیں۔ جس کے مختلف انداز اور طریقہ کار تھے؛ لیکن ان کی غایت اور ہدف ایک ہی تھا۔
پس شریر قسم کے فاسق و فاجر او رفسادی اور دھوکہ زدہ جاہل لوگ ان کا ساتھ دیتے رہے۔ ان کے فرقے اور نام بڑھتے رہے۔ اس تحریک کے نتیجہ میں بات یہاں تک پہنچ گئی کہ: اللہ تعالیٰ، اس کے ملائکہ، اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں اور آخرت کے دن کے بارے میں لوگوں کو ملحد بنادیں۔
اور تمام اسلامی فرائض جیسے : نماز، روزہ؛ اور زکوٰۃ کے ساقط ہونے کا عقیدہ رکھیں۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے تمام محرمات کو مباح اور بہنوں اور بیٹیوں سے نکاح کوجائز قرار دیا۔ اور اسلام کی تمام تعلیمات کے بارے میں منسوخ ہونے کا دعویٰ کرنے لگے۔ یہی نہیں بلکہ تمام انسانی اقدار کو منسوخ کہنے لگے؛ خواہ وہ جس قسم کے بھی ہوں۔
زمین میں فساد پھیلانا ان کا شیوہ بن گیا؛ اور ہر نیک چلن اور صالح حکمران؛ اہل علم و سلطان، اور بڑے انسان کے قتل کی تدبیریں کرنے لگے۔ اور پر امن لوگوں پر شب ِ خون مارنا ان کا معمول بن گیا۔ سو یہ لوگ قتل و غارت کرتے، اور لوگوں کے اموال ہتھیالیتے اور فواحش کا ارتکاب کرتے ہیں۔اسلامی شہروں پر حملہ آور لشکروں کی مدد کرتے اور ان کے ساتھ اسلامی حکومت کو گرانے اور اسے کمزور کرنے کے لیے ہر قسم کا تعاون کرتے ہیں۔[اور کرتے رہیں گے]
یہ سب کچھ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ؛ کفر اور اسلام ومسلمانوں کے خلاف اپنی شدید دشمنی اور بغض و حسد کو اپنے سینے میں چھپائے ہوئے کرتے ہیں۔
’’یہ اپنی ان خفیہ سازشوں کی وجہ سے کئی اسلامی ممالک کی معیشت کو کمزور کرنے اور ان ممالک کو دیگر ہر طرح سے پس ماندہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ‘‘[2]
(ان تمام باتوں سے ان کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی اسلامی ملک مادی طور پر کمزور ہوگا تووہ اپنے آپ کو
[1] أنظر: الغزالی: فضائح الباطنیۃ ص ۵۵۔
[2] انظر: عبد الرحمن جنکۃ المیدانی: مکائد یہودیۃ عبر التاریخ ص ۱۵۹۔