کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 559
’’میں حضرت علی سے ہوں، اور عثمان سے بری ہوں۔‘‘ یہ مثالیں منافقت اور دھوکا بازی؛عبارات و الفاظ کے کھیل تماشہ اور کلمات میں تحریف کی صورت میں ان کی کتابوں میں آئی ہیں جوکہ رافضیوں نے یہودیوں سے وراثت میں پائی ہیں۔ اور انہیں جھوٹ و ظلم کے ساتھ انہوں نے آل بیت کی طرف منسوب کیا ہے۔ اوراہل بیت ان سے بالکل بری ہیں۔ اور جس نے ان کے بارے میں یہ باتیں گھڑ ی ہیں [ہم اس کے متعلق یہی کہہ سکتے ہیں ]: ﴿وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنقَلِبُوْنَ﴾ (الشعراء:۲۲۷) ’’ ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں۔‘‘ سو رافضہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ تقیہ استعمال کرنا واجب ہے، جیسے کہ اس پر یہ روایات دلالت کرتی ہیں۔ یہ لوگ ان کے احکام پر قائم رہنے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ پیار و محبت کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ حقیقت میں وہ مسلمانوں کے دین سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔ اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ (اہل سنت مسلمان) یہود، مجوس اور مشرکین سے بڑے کافر ہیں۔ اوروہ کبھی بھی ان کے ساتھ دین پر جمع نہیں ہوسکتے۔ جیسا کہ نعمت اللہ الجزائری نے اس کی صراحت کی ہے۔ جب اس نے منافقت اور تقیہ کے پردے کو چاک کیا، اور اسلام اور مسلمانوں سے متعلق اپنے واضح موقف کو متعین کیا، تو اس نے کہا : ’’ ہم ان کے ساتھ ہر گز اکٹھے نہیں ہوسکتے ؛ نہ ہی اللہ پر، نہ ہی نبی پر اور نہ ہی امام پر۔ بے شک ان کا رب وہ ہے جس کا نبی محمد تھا اور اس کا خلیفہ ابو بکر تھا۔ ہم اس رب کو نہیں مانتے۔ اورنہ ہی اس نبی کو مانتے ہیں بلکہ ہم کہتے ہیں : بے شک وہ رب جس کے نبی کا خلیفہ ابو بکر ہے، وہ ہمارا رب نہیں ہے، اور نہ ہی وہ نبی ہمارا نبی ہے۔‘‘[1] اس وجہ سے وہ ہر چیز میں مسلمانوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ اور اسے اپنے دین کے اہم ترین اصولوں میں سے قرار دیتے ہیں،جس پر ان کے مذہب کی بنیاد قائم ہے، جیسا کہ صدوق نے علی بن اسباط سے روایت کیا ہے ؛ وہ کہتا ہے : میں نے رضا ( علیہ السلام ) سے کہا : ’’ کبھی کوئی معاملہ پیش آتا ہے جس کی معرفت حاصل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے مگر جس شہر میں میں رہتا ہوں،اس میں آپ کے موالین (دوستی رکھنے والے مراد شیعہ ہیں ) میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہے۔ (راوی)کہتا ہے: توانہوں نے کہا : ’’ اس شہر کے فقیہ کے پاس جاؤ ؛ اور اپنے اس معاملہ میں اس سے فتویٰ پوچھو؛ جب وہ تمہیں فتویٰ دے دے تو اس کے خلاف کرو،بے شک حق اسی میں ہے۔‘‘[2]
[1] اگر مراد یہ سارے لوگ ہوتے تو یوں کہا جاتا ’’جو ان میں سے کسی ایک سے …‘‘ مگر اس نے’’ایک ‘‘کہہ کر تقیہ کرتے ہوئے الفاظ کا کھیل ایسے کھیلا کہ سادہ لوح مسلمان اسے نہ سمجھ سکے۔ [2] اس طاقی کا نام ابو جعفر محمد بن نعمان الأحول ’’بھینگا‘‘ ہے۔ یہ کوفہ شہر میں اترا۔ اسے اہل سنت و الجماعت شیطان طاق کا لقب دیتے ہیں ، اور رافضی اسے مومن طاق کا لقب دیتے ہیں۔ دیکھیں : الفہرست لابن ندیم ص: ۸ ؛ من الملحق۔ [3] خارجی وہ گروہ ہے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی۔ اور حکمین اور حضرت امیر معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ ان کی بڑی تفصیل ہے۔ یہ لوگ حضرت علی کے بارے میں شیعوں کا مکمل الٹ ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ ان کی طرح جھوٹے نہیں۔ مترجم [4] الصراط المستقیم إلی مستحقي التقدیم ۳/ ۷۳۔