کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 558
’’اور جوظالم ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بن گئے۔‘‘
اور میرا یہ کہنا کہ: ’’أنہما کانا علی الحق‘‘’’ وہ دونوں حق پر تھے۔‘‘ [یہ ’’ کانا‘‘] ’’المکاونۃ یا الکون‘‘سے ہے، [جس کا معنی ہے تبدیل کرنا] اس کا معنی یہ ہوا کہ ان دونوں نے حق کو بدل ڈالا، اس لیے کہ خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق تھی؛ اور وہ اسی پر مر گئے؛ بے شک انہوں نے توبہ نہیں کی۔ بلکہ اپنے خبیث افعال پر قائم رہے ؛ یہاں تک کہ ان کی موت آگئی۔
اور میرا یہ کہنا: ’’علیہما رحمۃ اللّٰه ‘‘ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ ﴾ (الانبیاء:۱۰۷)
’’ اورہم نے آپ کو تمام جہان کے لیے رحمت (بنا کر) بھیجا ہے۔‘‘آپ اس پر روزِقیامت قاضی، حاکم اور گواہ ہوں گے جو کچھ انہوں نے کیا ہے۔ تو انہوں نے کہا : تم نے میری مشکل دور کردی، اللہ تعالیٰ تمہاری مشکل دور کرے۔‘‘
ان کے تقیہ استعمال کرنے کی ایک دوسری مثال : نباطی نے ’’ الصراط المستقیم ‘‘ میں روایت کیا ہے، وہ کہتاہے :’’ الیاس المعدل نے کچھ لوگوں کو سلام کیا ؛ تو انہوں نے جواب نہیں دیا، تو اس نے کہا : شاید تم بھی وہی گمان کرتے ہوجو میرے رافضی ہونے کے متعلق کہا گیا ہے ؟
’’ بے شک ابو بکر و عمر اور عثمان اور علی [ رضی اللہ عنہم اجمعین ]جو ان میں ایک سے بغض رکھے وہ کافر ہے۔ اس پر انہوں نے سلام کا جواب دیا، اور اس کے لیے دعا کی۔‘‘[1]
یہاں پر’’ایک ‘‘سے اس کی مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔
اور کہتا ہے : الطاقی[2] ایک خارجی[3] سے ملا۔ خارجی نے اس سے کہا: میں تمہیں ہر گز نہیں چھوڑوں گا، یا پھر تم حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تبرا کرو۔ تو اس نے کہا :
((أنا من علیٍ؛ ومن عثمانٍ بریئٌ۔))
’’ میں علی سے ؛ اور عثمان سے بری ہوں۔‘‘[4] اس طرح اس سے نجات پالی۔ اور اس سے مراد یہ لی کہ:
[1] الأنوار الوضیۃ في العقائد الرضویۃ ص: ۱۱۰۔
[2] درست آیت اس طرح ہے : ﴿وَجَعَلْنَاہُمْ أَئِمَّۃً یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ ﴾(القصص:۴۱ ) ’’ اور ہم نے ان کو پیشوا بنایا تھا وہ (لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے تھے۔‘‘
[3] آیت میں تحریف کی گئی ہے؛ درست آیت یوں ہے:﴿ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِرَبِّہِم یَعْدِلُوْنَ﴾ (الانعام :۱)’’پھر بھی کافر (اور چیزوں کو) اللہ کے برابر ٹھہراتے ہیں۔‘‘