کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 557
(بارہویں صدی کا ایک بڑا شیعہ عالم) کہتا ہے: یہ بات جان لینی چاہیے کہ آج کا گھر دار ِ تقیہ ہے، اور تقیہ واجب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِلَّا أَنْ تَتَّقُواْ مِنْہُمْ تُقَاۃً ﴾ (آل عمران: ۲۸) ’’ ہاں اگر تم اُن (کے شر ) سے بچائو کی صورت پیدا کرو۔‘‘ خواہ ایسا کرنے پر ابھارنے والا سبب اموال یا جانوں کی اور عزت کی حفاظت ہو، یا نقصان پہنچنے کی توقع ہو، اگر یہ اپنے بھائیوں پر ہی [نقصان کا اندیشہ ] کیوں نہ ہو۔‘‘[1] اہل سنت اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ان کے تقیہ استعمال کرنے کی ان کے ہاں کئی مثالیں ہیں۔ نعمت اللہ الجزائر ی [امام ]صادق سے روایت کرتا ہے : بے شک آپ سے خلیفہ کی مجلس میں شیخین [حضرت ابو بکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما ] کے بارے میں پوچھا گیا توانہوں نے کہا : ’’وہ دو عادل اور (قاسط)انصاف کرنے والے امام [ حکمران] تھے جو کہ حق پر تھے، اور اسی پر ان کا انتقال ہوا ؛ قیامت کے دن ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔‘‘ جب وہ مجلس سے کھڑے ہوئے تو ان کے بعض ساتھی ان کے پیچھے گئے اور کہا : اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے ! آج آپ نے ابوبکر و عمر کی تعریف کی ہے۔ توانہوں نے کہا : تم اس کا معنی نہیں سمجھتے جو میں نے کہا ہے، انہوں نے کہا : ہمارے سامنے اس کی وضاحت کرو۔ تو انہوں نے کہا : میرا یہ کہنا ہے کہ ’’وہ دو امام‘‘تو یہ اللہ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے : ﴿وَمِنْہُمْ أَئِمَّۃً یَدْعُوْنَ إِلَی النَّارِ ﴾[2] ’’ اور ان کو پیشوا ہیں جو (لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں۔‘‘ اور میرا یہ کہنا کہ ’’وہ دونوں عادل تھے‘‘اس سے میرا اشارہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف تھا: ﴿وَالَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِرَبِّہِمْ یَعْدِلُوْنَ﴾[3] ’’پھر بھی کافر (اور چیزوں کو) اللہ کے برابر ٹھہراتے ہیں۔‘‘ اور میرا یہ کہنا کہ : ’’وہ(قاسط) انصاف کرنے والے تھے‘‘ تو اس سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرف اشارہ مقصود تھا: ﴿وَأَمَّا الْقَاسِطُوْنَ فَکَانُوْا لِجَہَنَّمَ حَطَبًا﴾ (الجن:۱۵)
[1] مدارت کا لفظ پہلے بھی گزراہے اور آگے بھی آئے گا۔ یہ ایک اصلاح ہے جب انسان کسی مصلحت کے تحت یا کسی کی دلجوئی کے لیے کوئی معمولی دینی معاملہ ترک کردے ، یا اس میں سستی برتے۔ تو کہا جاتا ہے اس نے مدارت سے کام لیا۔ اس کا معنی لحاظ رکھنے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ مترجم [2] امالی المفید ص: ۱۲۱۔