کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 556
’’ اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں تو (اُن سے) کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ہم تو ہنسی کیا کرتے ہیں۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ یَقُوْلُوْنَ بِأَفْوَاہِہِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوبِہِمْ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِمَا یَکْتُمُوْنَ﴾ (محمد:۱۶۷) ’’ منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو اُن کے دل میں نہیں ہیں اور جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اللہ اس سے خوب واقف ہے۔‘‘ رہا ان کا اپنے تمام مخالف مسلمانوں کے ساتھ تقیہ استعمال کرنا ؛تو اس پر ان کے ہاں سب سے صحیح کتابوں میں وارد روایات؛ اور ان کے مشہور علماء کے اقوال دلالت کرتے ہیں۔ مفید نے علی بن مہر باز بن بکر بن صالح سے روایت کیا ہے؛ اس نے کہا ہے : ’’میرے سسر نے ابو جعفر الثانی صلوات اللہ علیہ کی طر ف خط لکھا کہ میرا باپ ایک خبیث الرائے ناصبی ہے۔ اور کبھی میں اس سے بہت ہی شدت اور سخت تکلیف پاتا ہوں۔ آپ کی رائے کیا ہے (میں آپ پر قربان جاؤں ) میرے لیے آپ کیا خیال کرتے ہیں (میں آپ پر قربان جاؤں ) کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں اس سے کھل کر بات کروں ؛ یا اس کے ساتھ مدارت [1]سے کام لوں ؟تو انہوں نے جواب میں لکھا : ’’ میں آپ کا خط سمجھ گیا۔ اور جو کچھ تم نے اپنے باپ کے بارے میں لکھا ہے۔ اور میں تم پر بددعا نہیں کروں گا؛ ان شاء اللہ! اور مدارت تمہارے لیے مکاشفت(کھل کر بات کرنے ) سے بہتر ہے۔ اور تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘[2] یہ لوگ اہلِ سنت کے ساتھ تقیہ کرنے کو واجب قرار دیتے ہیں، یہی نہیں بلکہ یہاں تک بھی جائز ہے کہ بیٹا اپنے باپ کے ساتھ تقیہ اور نفاق کرے جب کہ باپ سنی ہو۔ اس کی کوئی اور وجہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ لوگ جواپنے اور مسلمانوں کے دین کے درمیان جو فرق محسوس کرتے ہیں ؛ یہاں تک کہ انہوں نے بیٹے کے لیے باپ کے ساتھ تقیہ کرنے کو جائز قرار دے دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتو بیٹے کو باپ سے کون سا نقصان یا تکلیف پہنچنے کا خدشہ ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے باپ کے دل میں بیٹے کے لیے شفقت اور رحمت بھر دی ہے۔ اگر یہ بیٹا کوئی بہت بڑا مجرم نہ ہو۔ شیعہ علماء نے اہل سنت کے ساتھ تقیہ استعمال کرنے کے واجب ہونے کا کھل کرکہا ہے۔ حسین بن محمد العصفور
[1] اصول الکافی ۲/ ۲۲۰۔ [2] اصول الکافی ۲/ ۲۱۸۔ [3] اصول الکافی ۲/ ۱۱۷۔