کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 555
تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان معانی میں کوئی اختلاف نہیں پاتے ؛ اگرچہ الفاظ اور عبارت آپس میں مختلف ہیں۔
[احکام ِ تقیہ]:
ہم دیکھتے ہیں کہ رافضیوں کے ہاں تقیہ کی یہ تعریفات چار اہم ترین احکام کر گرد گھومتی ہیں :
۱۔ تقیہ کا معنی یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے کے لیے اس چیز کے خلاف ظاہر کرے جو وہ [اپنے اندر] پوشیدہ رکھتا ہے۔
۲۔ بے شک تقیہ کا استعمال مخالفین کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ تمام مسلمان اس عموم میں شامل ہیں۔
۳۔ تقیہ ان امور میں ہوتا ہے جن کو مخالفین دین سمجھتے ہیں۔
۴۔ تقیہ دین، جان اور مال پر خوف کے وقت ہوتا ہے۔
یہ چار احکام رافضیوں کے ہاں عقیدۂ تقیہ کا محور اور مرکز ہیں۔ اب میں آنے والی سطور میں ان احکام پر دلائل بھی ان لوگوں کی کتابوں سے پیش کروں گا۔
پہلا حکم: ’’تقیہ کا معنی یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے کے لیے اس چیز کے خلاف ظاہر کرے جو وہ [اپنے اندر ]پوشیدہ رکھتا ہے۔‘‘ا س پر ابوبصیر کی روایت دلالت کرتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ابو جعفر علیہ السلام نے کہا ہے :
’’ظاہری طور پر ان کے ساتھ میل جول رکھو اور خفیہ طور پر ان کی مخالفت کرو، خصوصاً جب کہ حکومت بھی بچوں والی(یعنی بیوقوف) ہو۔‘‘[1]
اور ابو عبد اللہ سے روایت ہے وہ کہتا ہے :
’’ اپنے دین کی حفاظت کرو، اوراسے تقیہ کر کے بچاؤ، اس لیے کہ جس کا تقیہ نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔‘‘[2]
یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کے نبیوں پر بھی تقیہ کی تہمت دھری ہے۔ وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی تھی:
’’اے موسیٰ ! میرے اوراپنے دشمن کے لیے میرے خفیہ راز کو چھپاؤ، اور اپنے اعلانیہ میں لحاظ ملاحظہ کا اظہار کرو۔ ‘‘[3]
یہ روایات اس ترغیب میں آئی ہیں کہ انسان جس چیز کو دین بناتاہے یا جس کا عقیدہ رکھتا ہے، اس کے خلاف ظاہر کرے۔ یہ مومنین کی صفات میں سے نہیں ہے بلکہ یہ منافقین کی خصلت ہے۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَإِذَا لَقُوْا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قَالُوْا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلٰٓی شَیَاطِیْنِہِمْ قَالُوْا اِنَّا مَعَکْمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُ وْنَ ﴾ (البقرہ:۱۴)
[1] عبد اللّٰه شبر : الأصول الأصلیۃ : ص :۳۲۰۔
[2] عبد اللّٰه شبر : الأصول الأصلیۃ : ص :۳۲۴۔
[3] عبد اللّٰه شبر : الأصول الأصلیۃ : ص :۳۲۰۔
[4] تصحیح الاعتقاد ص: ۱۱۵۔
[5] الکشکول ۱/۲۰۲۔
[6] کشف الأسرار ص: ۱۴۷۔