کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 554
’’ اے داؤد ! اگر میں تم سے کہوں کہ تقیہ ترک کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے نماز کا ترک کرنے والا ؛ تو میں [اپنی بات میں ] سچا ہوں گا۔‘‘[1] اور باقر سے روایت ہے اس سے پوچھا گیا لوگوں میں سب سے کامل کون ہے ؟کہا : ’’ جو تقیہ میں سب سے بڑاعالم ہو، اوران سے بڑھ کر اپنے بھائیوں کے حقوق [پورے کے پورے] ادا کرنے والا ہو۔‘‘[2] نیز اسی سے روایت ہے،بے شک اس نے کہا ہے : ’’ ہمارے شیعہ فاضل علماء کا سب سے بہترین اخلاق تقیہ کا استعمال کرنا ہے۔‘‘[3] یہ روایات ان کے ہاں تقیہ کی منزلت اور ان کے دین میں اس کے مقام کو واضح کرتی ہیں۔ یعنی تقیہ رافضی دین کے اہم ترین اصولوں میں سے ہے۔ اور اس کا کوئی ایمان نہیں ہوتا جو تقیہ نہیں کرتا۔ اور تارک تقیہ ایسے ہی ہے جیسے تارک نماز۔ بلکہ ان کے ہاں باقی سارے ارکان اسلام سے افضل ہے۔ تقیہ ان کے ہاں دین کے نو حصوں کے برابر ہے۔ اور باقی سارے ارکان ِ اسلام اور فرائض فقط باقی دسواں حصہ ہیں۔ رافضیوں کے دین میں تقیہ کی یہ منزلت ہے۔ [اب دیکھنا یہ ہے کہ ] وہ تقیہ کیا ہے جسے ان کے دین میں اتنا بلند و بالا مقام حاصل ہے۔ مفید اپنی کتاب ’’ تصحیح الاعتقاد ‘‘ میں رافضیوں کے ہاں تقیہ کا مفہوم واضح کرتے ہوئے کہتا ہے : ’’ تقیہ حق کو چھپانا، اور اعتقاد کو اس کے پردے میں رکھنا ہے۔ اوراپنے مخالفین سے چھپ کر رہنا ہے۔ اور ان مظاہرات [شرعی امور ] کا ترک کرنا ہے جن کے بجا لانے سے دین یا دنیا میں تکلیف پہنچنے کا خوف ہو۔‘‘[4] بارہویں صدی کا ایک شیعہ عالم یوسف البحرانی تقیہ کا مفہوم واضح کرتے ہوئے کہتا ہے : ’’ اس سے مراد خوف کی وجہ سے مخالفین کے ساتھ ان کے دین میں موافقت کا اظہار ہے۔‘‘[5] اور خمینی کہتا ہے: ’’تقیہ کا معنی ہے کہ انسان ایسی بات کہے، جو واقع کے خلاف ہو۔ یا کوئی ایسا عمل بجالائے جو میزان ِ شریعت کاالٹ ہو؛ اور وہ اپنے خون، اپنے مال اور اپنی عزت کی حفاظت کے لیے کرے۔‘‘[6] تقیہ کی یہ تین تعریفیں [معانی] تین مختلف زمانوں کے ان کے تین بڑے علماء سے نقل کی ہیں۔ ان معانی پر غو ر و فکر اور
[1] أصول الکافی ۲/۲۱۹؛ المحاسن ص: ۲۵۵۔ [2] أصول الکافی ۲/۲۱۷؛ المحاسن ص: ۲۵۹۔ [3] امالی الطوسي ص: ۲۸۷۔ [4] المحاسن للبرقي ص: ۲۵۷۔