کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 553
یہودیوں کے لیے باقی اقوام کے ساتھ دھوکا دہی اور منافقت کا برتاؤ کرنے کے لیے ایک آسان راہ پیدا ہوجائے۔ یہ صرف یہودی اخلاق ہی نہیں ہے جس پر انہوں نے تربیت پائی ہے ؛ بلکہ ان کا دینی دستور اور شرعی منہج ہے ؛ جسے یہود نے اپنے لیے گھڑ لیا تاکہ باقی اقوام اور ملتوں کے ساتھ یہ سلوک کرسکیں۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ یہودی ان مذموم اخلاقیات کونسل در نسل وراثت میں پاتے چلے آرہے ہوں۔ جب کہ ہم نے اس اخلاق کا ان کے ہاں دینی مقام و مرتبہ بھی پہچان لیا ہے۔ [پھر تو تعجب کی کوئی بات ہی نہیں ]
دوسری بحث :…رافضیوں میں تقیہ
وہ عقائد جن میں رافضی باقی اسلامی فرقوں سے جدا ہیں، ان میں ایک تقیہ کا عقیدہ بھی ہے۔ تقیہ کو رافضیوں کے دین میں بہت بڑی منزلت؛ بلند مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ اس پر کئی ایک روایات دلالت کرتی ہیں جو کہ ان کی اہم ترین بنیادی کتابوں میں آئی ہیں۔
کلینی اور دوسرے لوگوں نے جعفر صادق سے نقل کیا ہے: وہ کہتے ہیں :
(( التقیۃ دیني و دین آبائی ؛ ولا أیمان لمن لا تقیۃ لہ۔))
’’تقیہ میرا دین ہے اور میرے آباء کا دین ہے، اور اس کا کوئی ایمان نہیں ہے جس کے ہاں تقیہ نہیں ہے۔‘‘[1]
اور ابو عبد اللہ سے روایت ہے انہوں نے کہا ہے :
’’دین کی نو دہائی تقیہ میں ہے۔ اور اس کا کوئی ایمان نہیں ہے جس کے ہاں تقیہ نہیں ہے؛ اور تقیہ ہر چیز میں ہے، سوائے نبیذ، اور موزوں پر مسح کے۔‘‘[2]
اور طوسی نے اپنی امالی میں جعفر صادق سے روایت کیا ہے ؛ انہوں نے کہا ہے :
’’ وہ ہم میں سے نہیں ہے جو تقیہ کو اپنے لیے لازم نہ کرلے اور ہمیں گری ہوئی رعیت سے بچانہ لے۔‘‘[3]
اور ’’المحاسن ‘‘ میں حبیب بن بشیر نے ابو عبد اللہ سے روایت کیا ہے،وہ کہتے ہیں :
’’ اللہ کی قسم ہر گز نہیں ! زمین پرکوئی چیز ایسی نہیں ہے جو تقیہ سے بڑھ کر مجھے محبوب ہو۔ اے حبیب ! جو تقیہ کو اپناتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے بلند مقام عطا کرتے ہیں۔ اے حبیب ! جو تقیہ نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اسے گرا[ذلیل و رسوا کر] دیتے ہیں۔‘‘[4]
اور ’’الأصول الأصلیۃ‘‘ میں ہے : علی بن محمد نے مسائل داؤد الصرمی میں نقل کیا ہے، وہ کہتا ہے :
[1] د/ روہلنج: الکنز المرصود ص: ۷۱۔
[2] فضح التلمود ص: ۱۳۳۔
[3] اسرائیل و تلمود ص: ۷۷۔
[4] د/ روہلنج: الکنز المرصود ص:۹۵۔