کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 551
’’ بے شک [عالم] ربانی (شاھاتا) جو کہ دین پر بڑی مضبوطی سے قائم تھا کی عادات میں سے تھا کہ وہ غیر یہودی پر اس طرح سلام کرتا تھا: ’’السلام معک‘‘ سلام تیرے ساتھ ہو۔‘‘ اس سے وہ نیت کو اپنے استاد کی طرف متوجہ کرتا تھا نہ کہ غیر یہودی کی طرف۔‘‘[1] ایسے یہودی سلام کرنے کا اظہار کرتے ہیں، اور اپنے جی میں وہ بات پوشیدہ رکھتے ہیں جس کا اظہار نہیں کرتے۔ پس کسی مسلمان کے لیے اس کے بعد مناسب نہیں ہے کہ وہ یہودیوں کے منافقانہ اسلوب سے دھوکا کھاجائے خواہ وہ جتنی بھی محبت اور پیار کا اظہار کرلیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اسلوب کورسوا کیا، اوریہ کلی قرآن میں کھول کر بیان کردی فرمایا: ﴿ وَإِذَا جَاؤُکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ ﴾ (المجادلہ:۸) ’’جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو ایسے سلام کرتے ہیں جو سلام اللہ نے (مشروع) نہیں کیا۔‘‘ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کا سبب نزول روایت کیا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے؛اچانک ان کے پاس ایک یہودی آیا،اوران پر سلام کیا ؛ انہوں نے سلام کا جواب دیا؛تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم جانتے ہو اس نے کیا کہا ہے ؟ کہنے لگے : یارسول اللہ! اس نے تو سلام کیا ہے۔ فرمایا نہیں، بلکہ اس نے تمہیں موت کی بد دعا دی ہے، یعنی تم اپنے دین میں زہر آلود ہوجاؤ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے واپس بلاؤ۔ اسے واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کیا تو نے کہا ہے : تم پر موت ہو؟اس نے کہا : ہاں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اہل کتاب کی طرف سے تم پر سلام کیا جائے تو کہو : ’’علیک‘‘ یعنی :’’تجھ پر۔‘‘[2] منافقت میں یہودیوں کے اسلوب میں ایک اپنے مخالفین کی خوشیوں میں شریک ہوکر ان سے محبت کا اظہار کرنا ہے۔ اور منافقت اور دھوکا بازی سے ان کے لیے خوشی اورسرورکو ظاہر کرنا ہے۔ حاخاموں کی وصیتوں میں یہ بات آئی ہے : ’’ جب تم کسی گاؤں میں داخل ہو، اور وہاں کے رہنے والے عید منارہے ہوں ؛ تم پر واجب ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ اپنی شراکت ظاہر کرو،اور ان بہت بڑی خوشی کا اظہار کرو، تاکہ تم اپنے بغض کو چھپا سکو۔‘‘[3] اور ایسے ہی یہودی حاخام اپنے ماننے والوں کویہودی مخالفین کی تیمار داری کرنے اور ان کے جنازوں میں منافقت اور دھوکا دہی سے شریک ہونے کی وصیت بھی کرتے ہیں ؛ تلمود میں ہے:
[1] عبد اللّٰه ٹل : جذور البلاء ص: ۸۰۔ [2] د/ روہلنج : الکنز المرصود ص: ۷۰۔ [3] إسرائیل و تلمود ص: ۶۹۔ [4] د/ روہلنج : الکنز المرصود ص: ۷۵۔ [5] د/ روہلنج: الکنز المرصود ص: ۷۱۔