کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 550
تلمودی تعلیمات کے ضمن میں یہ بھی آیا ہے :
’’یہودی کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے مخالف کے ساتھ مجاملت[لگی لپٹی] سے کام لے، تاکہ اس کے شر سے محفوظ رہے۔ اور اس کے لیے شر اور اذیت کو پوشیدہ رکھے۔‘‘[1]
تلمود کا ایک کاتب جس کا نام حاخام بشائی ہے ؛ کہتا ہے :
’’ بے شک منافقت جائز ہے؛اور بے شک انسان (یعنی یہودی) کے لیے ممکن ہے کہ وہ کافروں کے ساتھ مودب بن کررہے ؛ اوراس کی محبت کا جھوٹا دعویٰ کرے؛ جب اس سے تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔‘‘[2]
نیز تلمود کی نصوص میں سے ایک اور نص میں ہے :
’’یہودی کویہ حق حاصل ہے کہ وہ کافر کودھوکا دے۔ اور اس پر حرا م ہے کہ کافر کو سلام کرے؛ جب تک اس کی تکلیف پہنچنے یا دشمنی کا اندیشہ نہ ہو۔ اس حالت میں منافقت جائز ہے اور کافر کی محبت کا دعویٰ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے (خصوصاً) جب یہودی کو اس (کافر) سے تکلیف پہنچنے کا خوف بھی ہو۔‘‘ [3]
اور حاخام ’’اکیبا‘‘ کہتا ہے : ’’ یہودی پر لازم ہے کہ وہ اپنے حقیقی مقصد کا اظہار نہ کرتے تاکہ اپنی دینی اعتبار باقی امتوں کی نظروں میں کھو نہ دے۔‘‘[4]
ایسے یہودی حاخام اپنے ماننے والوں کے لیے منافقت کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ غیر یہودی کے ساتھ نفاق جائز ہے بلکہ اسے ایک دینی ضرورت اور شرعاً مطلوب شمار کرتے ہیں جس پر یہودی حاخاموں کے سابقہ اقوال دلیل ہیں۔
پھر جب ان حاخاموں نے اپنے دین نفاق اور دھوکا بازی کو جائز قرار دیا ؛ اوراسے ایک دینی واجب بنالیا ؛ تو انہوں نے وہ اسلوب بھی وضع کیے جن پر چلتے ہوئے یہودی کو اپنے مخالف کے ساتھ دھوکا منافقت کا برتاؤ کرنا چاہیے۔
یہودیوں کے ہاں منافقت کے اسلوب میں سے : ان کا اپنے علاوہ باقی لوگوں کو سلام کرنے کا طریقہ ہے۔ تلمود میں آیا ہے :
’’ یہودی کو اجازت ہے کہ جب اجنبی سے ملے تو اسے سلام کرے،اور ا س سے کہے : ’’ اللہ تیری مدد کرے، اور تیرے لیے مبارک بنائے مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنے دل میں اس سے ٹھٹھہ کررہا ہو۔‘‘[5]
اور تلمود میں ہی آیا ہے :