کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 546
کے خون، ان کے اموال، اور ان کی عزتیں حرام ہیں۔ کسی ایک کو یہ اجازت نہیں کہ وہ ان عزتوں کو پامال کرے، یا انہیں مباح ٹھہرائے۔
اس حدیث میں یہودیوں اور رافضیوں پر رد ہے جو مسلمانوں کے خون، اموال، اور عزتوں کو حلال جانتے ہیں، اور انہیں انتہائی درجہ کا حقیر سمجھتے ہیں۔
جیسے کتاب الٰہی ان کے لوگوں کو حقیر جاننے کے اس فاسد نظریہ کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہے، ایسے ہی خود ان لوگوں کی کتابیں بھی ان کے اس معتقد کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
سفر ارمیا میں فخر جتلانے کی نہی اور مذمت وارد ہوئی ہے :
’’رب نے ایسے ہی کہا ہے : حکیم اپنی حکمت کی وجہ سے ہر گز فخر نہ کرے۔ اور نہ ہی جبار اپنی جبروت کی وجہ سے فخر کرے ؛ اور نہ ہی مالدار آدمی اپنی تونگری کی وجہ سے فخر کرے بلکہ فخر کرنے والے کو اس چیزپر فخر کرنا چاہیے کہ وہ سمجھتاہے اورمجھے جانتا ہے؛ بے شک میں ہی رب ہوں، اور رحمت کا بنانے والا ہوں ؛ اور زمین میں عدل اور فیصلہ کرنے والا ہوں۔ یہ راز کی باتیں رب کہتا ہے۔‘‘[1]
اس نص میں کسی بھی چیز پر فخر کرنے کی نفی آئی ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے تقویٰ کے۔ اور یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے قریب تر ہے :
﴿یٰٓـاَ یُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ ﴾ (الحجرات:۱۳)
’’ اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے،اور ہم نے تمہیں قبائل اور خاندان اس لیے بنایا ہے تاکہ تم پہچان حاصل کرسکو، تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو۔‘‘
اس حکم میں یہودیوں پر واضح رد ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور تقویٰ کے علاوہ دوسرے بہت سارے امور کی وجہ سے فخر جتلاتے ہیں ؛ او رجن کی بنیاد عنصریت ؛ قبیلہ اور قوم پرستی پر ہے۔ جیسے ان کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو اپنا حصہ بنایاہے، جب کہ باقی لوگوں کی روحیں شیطان سے ہیں۔ ان کے علاوہ اوربھی باطل دعوے؛جن کی وجہ سے وہ لوگوں کو حقیر جانتے ہیں۔
رافضیوں کے ہاں بھی بعض روایات لوگوں پر فخر جتلانے اور ان کو حقیر جاننے کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔ حرّانی نے ’’تحف العقول‘‘ میں روایت کیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ؛ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] الرد علی الرافضۃ ص: ۴۴۔
[2] مسلم :کتاب البر والصلۃ ؛ باب: تحریم ظلم المسلم و خذلہ و احتقارہ و دمہ و عرضہ و مالہ ؛ ح: ۳۲۔