کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 545
ہیں بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ :ان کی شکلیں اور چہرے موت کے وقت بگڑ جاتے ہیں ‘‘[1]۔ واللہ اعلم!!
جب کہ مسلمان جن کے لیے ر افضی اور یہودی یہ اوصاف بیان کرتے ہیں ؛ انہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر احسان فرمایاہے؛اور انہیں باقی امتوں پر شرف سے نوازا ہے کہ انہیں بہترین امت بنایا ہے،جنہیں لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ﴾ (آل عمران:۱۱۰)
’’تم سب سے بہتر ین امت ہو؛ تمہیں نکالا گیا ہے کہ نیکی کاحکم دیتے ہو اور بُرے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مسلمان بھائی کوحقیر جاننے اور اس کی شان میں کمی کرنے سے ڈرایاہے۔ صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
(( المسلم أخو ا لمسلم، لا یظلمہ، ولا یخذلہ، ولا یحقرہ، والتقوی ھاھنا، (یشیر إلی صدرہ ثلاث مرات) بحسب امریء من الشرِّ أن یحقر أخاہ،کل المسلم علی المسلم حرام دمہ، ومالہ، وعرضہ۔))
’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے، اور نہ اسے حقیر جانتا ہے، اور تقویٰ یہاں ہے، (یہ فرماتے وقت آپ نے اپنے سینہ مبارک کی طرف تین باراشارہ کیا) اور کسی مسلمان کے لیے اتنا شر ہی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر جانے، ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر خون حرام ہے، مال حرام ہے، اور اس کی عزت سے کھیلنا حرام ہے۔‘‘ [2]
سو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو حقیر جاننا حرام ٹھہرایا ہے،اور یہ بیان کیا ہے کہ لوگوں کے مابین فضیلت کا معیار اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے؛ اور دل کی خفیہ باتوں اورسینے کے رازوں کے متعلق کسی ایک کو بھی خبر نہیں ہے سوائے اللہ تعالیٰ کے۔ گویا کہ آپ اشارہ فرمارہے تھے کہ جب تک معاملہ ایسے رہے ؛ اور یہ حالت رہے، [یعنی معاملات دل میں پوشیدہ رہیں ]تو کسی ایک کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ کسی دوسرے کو حقیر جانے۔ اس لیے کہ تقویٰ کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ حقیر جاننے والے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اس ایک خصلت کی وجہ سے ’’اہل ِشر ‘‘میں سے ہے؛ یعنی مسلمانوں کو حقیر جاننے کی خصلت۔ [کی وجہ سے ] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ مسلمانوں
[1] علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عبدالرزاق نے کہا ہے : سفیان ثوری سے روایت ہے، وہ اعمش اور منصور سے ؛ اور وہ ابو الضحی سے، اور وہ مسروق سے ؛ وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ﴿وَاتْلُ عَلَیْْہِمْ نَبَأَ الَّذِیَ آتَیْنَاہُ آیَاتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْہَا﴾ کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں ؛ یہ بنی اسرائیل کا ایک آدمی تھا جس کا نام بلعم بن باعوراء تھا۔ مالک بن دینار کہتے ہیں : یہ شخص بنی اسرائیل کے علماء میں سے ایک تھا؛ اور اس کی دعا قبول کی جاتی تھی۔ مصیبت کے وقت اسے دعا کے لیے آگے کیا کرتے تھے۔ اسے اللہ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے بادشاہ کے پاس دعوت ِ دین کے لیے بھیجا۔ اس بادشاہ نے اس کوکچھ عطیات دیے ؛ تو یہ موسیٰ علیہ السلام کا دین چھوڑ کر اس بادشاہ کے دین پر لگ گیا۔ تفسیر ابن کثر ۲/ ۲۶۴۔