کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 542
جسے حقیر سمجھا جارہا ہے اس کی قدر اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی ہوتی ہے، اور وہ ٹھٹھہ اڑانے والے اور حقیر جاننے والے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب اور پسندیدہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے : ﴿ یٰٓـاَ یُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَائٌ مِّنْ نِّسَائٍ عَسٰی أَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ ﴾ ’’ اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق نہ اڑائیں، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔‘‘ اللہ نے مردوں کو ممانعت کا حکم دیا، اور پھر اس کے بعد عورتوں کے لیے حکم کو اس پر معطوف کیا۔[1] پھر اللہ تعالیٰ نے ٹھٹھہ کی بعض اقسام سے[خصوصاً] منع کیا؛ جیسے : عیب لگانا، برے نام سے پکارنا وغیرہ ؛ فرمایا: ﴿وَلَا تَلْمِزُوْا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِ﴾ ’’ اور آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ، اور نہ کسی کو برے لقب دو۔‘‘ علامہ شوکانی رحمہ اللہ : ﴿وَلَا تَلْمِزُوْا أَنْفُسَکُمْ﴾کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اللمزکا معنی ہے عیب۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لمز ہاتھ سے بھی ہوتا ہے، اور آنکھ اور زبان اوراشارہ سے۔ جب کہ ’’ھمز‘‘ صرف زبان سے ہوتا ہے۔ ﴿وَلَا تَلْمِزُوْا أَنْفُسَکُمْ﴾کا معنی یہ ہوا کہ : تم آپس میں ایک دوسرے کے عیب نہ نکالو؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَا تَقْتلُوا أَنْفُسَکُمْ﴾ (النساء:۲۹)’’ اور اپنی جانوں کو قتل مت کرو۔‘‘ [یعنی ایک دوسرے کو قتل نہ کرو] اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَسَلِّمُوْا عَلٰی أَنْفُسَکُمْ﴾ (النور: ۶۱) ’’ اور اپنے آپ پر سلام کرو۔‘‘ [یعنی آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرو] امام مجاہد، قتادہ اور سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں : ’’ تم آپس میں ایک دوسرے پر طعنہ زنی مت کرو۔ اور امام ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’تم آپس میں ایک دوسرے پر لعنت مت کرو۔‘‘[2] اور ﴿ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِ﴾ کے معنی میں علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’التنابز‘‘ نَبْز[ب ساکن]کے ساتھ تفاعل کے وزن پر ہے۔ یہ مصدر ہے۔اور ’’نَبَز [ب پر زبر] کے ساتھ لقب ہے۔ اور اس کی جمع ’’أَنَباز‘‘ آتی ہے۔ اور الالقاب لقب کی جمع ہے؛یہ انسان کا غیرِمسمی نام ہے۔ اور یہاں پرمراد برے القاب ہیں۔اورتنابز بالالقاب کا معنی یہ ہوا کہ آپس میں ایک دوسرے کو برے نام سے پکارا جائے۔ امام واحدی فرماتے ہیں :
[1] ابن اثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : [بطرالحق کامعنی یہ ہے کہ] اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید اور عبادت میں سے جس چیز کو حق قرار دیا ہو، اسے باطل کردے۔ اورکہا گیا ہے کہ: اس کا معنی ہے : حق بات پر تکبر کرے، اور اسے حق نہ سمجھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حق بات پر تکبر کرے، اور اسے قبول نہ کرے۔‘‘ النہایۃ ۱/ ۱۳۵۔ [2] الغمط: لوگوں کی اہانت کرنا انہیں حقیر جاننا ؛ غمص بھی اسی معنی میں ہے۔ النہایۃ ۳/ ۳۸۷۔ [3] رواہ مسلم فی کتاب الإیمان / باب: تحریم الکبر وبیانہ ؛ ح: ۱۴۷۔