کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 541
چوتھی بحث : …یہوداور روافض کا غیروں کو حقیر جاننے کے گمان پر رد
قرآن کریم اور سنت ِ نبوی کسی بھی لحاظ سے لوگوں کا ٹھٹھہ اڑانے، ان کے ساتھ تمسخر کرنے اورانہیں حقیر جاننے کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ٰٓیاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَائٍ عَسٰی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا اَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمْ الظَّالِمُوْنَ o یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنْ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًااَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَحِیْمٌ o﴾ (الحجرات:۱۱)
’’ اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق نہ اڑائیں، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ، اور نہ کسی کو برے لقب دو ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں۔ اے ایمان والو! بہت بد گمانی سے بچو، کیونکہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔اور بھید نہ ٹٹولا کرو،اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے،کیاتم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا گوارہ کرے گا کہ تم کو اس سے گھن آتی ہو؟ اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ لوگوں کا مذاق اڑانے، انہیں حقیر جاننے اور ان کا ٹھٹھہ کرنے سے منع کرتے ہیں۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( الکبر بطرالحق[1] و غمص للناس۔ وفی روایۃ: ’’غمط [2] للناس۔))
’’تکبر حق سے آگے بڑھنا اور لوگوں کوحقیر جاننا ہے۔‘‘[3]
اور اس سے مراد ان کوحقیر جاننا اورگھٹیا سمجھنا ہے اورایسا کرنا حرام ہے۔ بسا اوقات جس کا ٹھٹھہ اڑایا جارہا ہے، اور
[1] منہاج السنۃ ۱/۳۷۔