کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 54
ہیں۔لوگوں نے خلیفہ کو ان کے قتل کرنے کا مشورہ دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس مشورہ کو نہ مانا اور ان شر پسندوں کو چھوڑ دیا۔ وہ واپس لوٹ گئے، اور اسی سال شوال میں آنے کی دھمکی دے کرگئے تاکہ وہ حجاج کے روپ میں آکر شب ِ خون مار سکیں۔[1]
جب مقررہ وقت آگیا تو بلوائی مدینہ کی طرف نکلے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ان کے گھر میں محاصرہ کر لیا۔یہ محاصرہ آخرِ ذي القعدہ سے لے کر اٹھارہ ذي الحجہ جمعہ کے دن تک جاری رہا۔
اس سے ایک دن پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے پاس موجود مہاجرین اور انصار جو تقریبًا سات سو کی تعداد میں تھے؛ جن میں سیّدناعبد اللہ بن زبیر ؛ عبد اللہ بن عمر ؛ حسن و حسین ؛ مروان ؛ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے (اور آپ کی حفاظت وحمایت کے لیے جمع تھے ؛ان)سے کہا :میں ہر اس انسان کو قسم دیتا ہوں جس پر میرا کوئی حق ہے کہ وہ اپنا ہاتھ روک لے، اور اپنے گھر چلا جائے۔ اور اپنے غلاموں سے کہا : ’’ جو اپنی تلوار کو نیام میں رکھ لے وہ آزاد ہے۔ ‘‘
اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک خواب دیکھا تھا، جو ان کی اجل کے قریب ہونے پر دلالت کرتا تھا تو انہوں نے اللہ سے اس کے وعدہ کی امید پر اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا تھا۔
اس کے بعد بلوائیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ بہت سخت کردیا ؛ اور آپ سے پانی روک دیا، اور آپ کو لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے بھی نہیں نکلنے دیا، پھر گھر کی دیواریں پھلانگ کر اندر گھس گئے اور انہیں قتل کردیا۔ اس وقت اللہ کی کتاب آپ کے سامنے تھی، آپ تلاوت فرمارہے تھے۔[2]
ایسے یہ یہودی سازش، ظلم اور سرکشی کی تمام مثالوں کا ریکارڈ توڑتے ہوئے ایک خبیث اورمکار لعنتی یہودی،جو کہ مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے اور اسلام کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا ؛ اس بد بخت کے ہاتھوں تیسرے خلیفہ راشد جناب حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے قتل پر اپنے اختتام کو پہنچی۔
ثانیاً: میمون قداح کا فتنہ اور فرقہ باطنیہ کی ایجاد :
یہ بھی اسلام کے خلاف یہودی سازشوں کی کڑی ہے، سبائیت کی چنگاری ابھی تک نہیں بجھی تھی کہ یہود نے ایک دوسری سازش تیار کر لی، جس کی قیادت ایک دوسرایہودی کررہا تھا۔ جس کا ظہور ۲۷۶ھ کو کوفہ میں ہوا۔ اس یہودی کا نام ہے:’’ میمون القداح۔‘‘[3]
اس طرح اس نے اسلام میں ایک سب سے خبیث فرقہ ایجاد کیا جسے ’’فرقہ باطنیہ‘‘ کہا جاتاہے۔ یہ یہودی بھی
[1] انظر: ابن الأثیر : الکامل في التاریخ ۳/۸۵۔
[2] انظر : ابن کثیر : البدایۃ والنہایۃ ۷/ ۱۸۱۔
[3] انظر : محمد بن مالک بن أبی الفضائل : کشف أسرار الباطنیۃ ص ۱۷۔