کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 538
اور اس بحث کے آخر میں جس بات پر میں تنبیہ کرنا چاہتا ہوں [وہ یہ ہے کہ] : میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں نے وہ تمام روایات ذکر کردی ہیں جو رافضیوں کے اپنے علاوہ باقی لوگوں کو حقیر جاننے پر دلالت کرتی ہیں ؛ بلکہ میں نے تو صرف چند ایک وہ مثالیں بیان کی ہیں جو ان کی کتابوں میں وارد ہوئی ہیں ؛ اور ایسا میں نے بحث کے زیادہ طویل ہوجانے کے خوف سے کیا ہے، جیسا کہ شروع میں میں نے اس طرف اشارہ کیا تھا۔
تیسری بحث:…یہود و روافض کے نظریۂ حقارت میں وجوہ مشابہت
شر کی کوئی راہ بھی ایسی نہیں ہے جس پر یہودی چلے ہوں مگر رافضی اس میں ان کی اتباع کرتے ہیں۔ اور اللہ کے دین میں یہودی کوئی بھی بدعت ایجاد نہیں کرتے ؛ مگر رافضی اس کی تقلید میں لگے ہوتے ہیں۔ جو آدمی یہودیوں کے اپنے مخالفین سے متعلق سابقہ ذکر کردہ موقف پر غور و فکر کرے ؛ اور پھر اسی کے مانند رافضیوں کے ان کے مخالفین سے متعلق موقف پر غور و فکر کرے، تواس کے لیے ہماری اس دعویٰ کی صحت ظاہر ہو جائے گی۔ اور بے شک رافضیوں کے اس سابقہ موقف کا تانا بانا یہودی ہاتھوں پر بُنا گیا۔ یہ بات دو امور پر غور کرنے سے واضح ہوجاتی ہے :
پہلا امر: …وہ تمام نصوص جو رافضی کتب میں وارد ہوئی ہیں، جو کہ اپنے مخالفین کے ساتھ سابقہ رافضی موقف کی ترجمانی کرتی ہیں، ان کا اسلام سے کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہے، نہ ہی قریب کا تعلق اور نہ ہی دور کا تعلق۔ بلکہ یہ (موقف) دین اسلام کے اصولوں سے ٹکراؤ رکھتا ہے۔ مٹی کا یہ عقیدہ اسلام میں کہاں ہے؟اور وہ صحیح دلائل کہاں ہیں جو رافضیوں کے اپنے ہر مخالف پر تہمت لگانے او رالزام دھرنے پر (دلیل ثابت ہوسکیں ) کہ حقیقت امر میں یہ لوگ بندر اور خنزیر، اور کتے اور گدھے ہیں ؟رافضیوں کے ہر ایک مخالف کے پلید ہونے پر کتاب و سنت سے دلیل کہاں ہے؟اور کون اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ کتاب وسنت سے منصوص کوئی ایک دلیل اس بات کی لاسکے کہ کوئی معین گروہ (خواہ وہ سب سے بڑے) کافر ہی کیوں نہ ہوں، وہ زنا کی اولاد ہیں۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ یہ عقائد مسلمانوں کے عقائد ہوں۔
دوسرا امر:… وہ تمام نصوص جو رافضی کتابوں میں وارد ہوئی ہیں ؛ جو کہ ان کے علاوہ باقی لوگوں کو حقیر جاننے پر دلالت کرتی ہیں ؛ وہ اپنی روح اور نص کے اعتبار ان یہودی حاخاموں کی تعلیمات کے ساتھ متفق ہیں جو کہ تلمود میں اور باقی یہودی کتب میں وارد ہوئی ہیں۔
[دلیل ِ تقابل ]:
اس عقیدہ میں یہودی اور رافضی اقوال کے درمیان تقابلی جائزہ لیتے ہوئے آپ کے سامنے اس کے دلائل پیش کیے جارہے ہیں :
۱۔ یہودیوں اور رافضیوں میں سے ہر ایک اپنی تخلیق کا مادہ باقی لوگوں کے تخلیق کے مادہ سے جدا ہونے کا اعتقاد
[1] الإرشاد ص:۴۰۔
[2] محمد بن الفتال النیسابوری ص: ۲۹۴۔
[3] الکشکول ۳/ ۱۲-۱۶۔