کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 535
﴿لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوْا الْیَہُودَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ ﴾ (المائدہ :۸۲) ’’تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں۔ ‘‘ [مخالفوں کی نجاست کا اعتقاد]: رہا رافضیوں کا اپنے مخالفین کے متعلق نجس ہونے کا عقیدہ ؛ تو اس پر کئی روایات دلالت کرتی ہیں : کلینی نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے نقل کیا ہے : ’’ بے شک آپ ولد الزنا کا جوٹھا مکروہ سمجھتے تھے اور یہودی، نصرانی اور مشرک کا جوٹھا؛ اسلام کے خلاف تمام کا [جوٹھا]؛ اور ان میں سب سے زیادہ سخت ان کے نزدیک ناصبی کا جوٹھا تھا۔‘‘[1] دوسری روایت میں ہے ؛ جسے کلینی نے ابو عبد اللہ سے روایت کیا ہے، کہا ہے : ’’اس کنوئیں میں مت نہانا جس میں حمام کا پانی جمع ہوتا ہو،اس لیے کہ اس میں ولد الزنا کے غسل کا پانی بھی ہوگا؛ اور وہ (یعنی ولد الزنا کے غسل کا پانی) سات نسلوں تک پاک نہیں ہوتا۔ اوراس میں ناصبیوں کے غسل کا پانی بھی ہوتا ہے جوان دونوں سے برا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے کوئی مخلوق کتے سے بری نہیں بنائی۔ اورناصبی اللہ کے ہاں کتے سے بھی زیادہ بے وقعت ہیں۔‘‘[2] یہ دونوں روایتیں ان کے اس اعتقاد پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کے ہر مخالف کا جوٹھا نجس ہے۔ یہ خود ان کے نجس ہونے کے اعتقاد کی وجہ سے ہے۔ اور یہ کہ وہ پاک نہیں ہوسکتے، جیسا کہ دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ ابنِ زنا سات پشتوں تک پاک نہیں ہوسکتا۔ اور یہ کہ ناصبی ان سے بھی برے ہیں۔ ان کے ہاں یہ عقیدہ بھی ہے کہ ان کے مخالفین کی نجاست صرف جوٹھے کے ذریعہ سے منتقل نہیں ہوتی، بلکہ ہاتھ ملانے اور چھونے سے بھی نجاست منتقل ہوتی ہے جیسا کہ اس پر یہ روایت دلالت کرتی ہے جو کہ کافی میں ہے : ’’خالد القلانسی سے مروی ہے، وہ کہتاہے : میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے کہا :میں کسی ذمی سے ملتاہوں، اور وہ مجھ سے ہاتھ ملاتاہے (تواس کا کیا حکم ہے)؟کہا : اسے مٹی میں اور دیوار پر مل لے۔ میں نے کہا : اگروہ ناصبی ہو؟فرمایا : اسے دھو ڈال۔‘‘[3] یہ روایات رافضیوں کے اپنے مخالفین کے متعلق نجاست کے عقیدہ پر دلالت کرتی ہیں۔ اور یہ کہ ان کی یہ نجاست ان جوٹھے سے، اور ان کے ساتھ مباشرت [میل جول]سے، اور کسی بھی مائع چیز سے منتقل ہوسکتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کوچھونے سے اور انہیں ہاتھ ملانے سے بھی یہ نجاست منتقل ہوتی ہے۔ یہاں پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اہل سنت و الجماعت کی نجاست کویہود ونصاریٰ اور مشرکین کی نجاست سے بھی
[1] امالی الطوسی :ص: ۲۷۹ ؛ و بحار الأنوار ۲۷/ ۲۲۱۔ [2] المحاسن : ص: ۱۸۵۔ ثواب الأعمال و عقاب الأعمال ص: ۲۵۱۔ اوراس روایت کومجلسی نے بحار الأنوار میں بھی نقل کیا ہے : ۲۷/ ۲۳۶۔