کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 534
ارشاد فرماتے ہیں : ﴿قُلْ ہَلْ أُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِّن ذٰلِکَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اللّٰہِ مَن لَّعَنَہُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ أُوْلٰٓـئِکَ شَرٌّ مَّکَاناً وَأَضَلُّ عَنْ سَوَائَ السَّبِیْلِ﴾ (المائدہ:۶۰) ’’ کہو کہ میں تمہیں بتائوں کہ اللہ کے ہاں اس سے بھی بد تر جزا پانے والے کون ہیں، وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر غضبناک ہوا او ر (جن کو ) ان میں سے بندر اور خنزیر بنا دیا اور جنہوں نے شیطان کی پرستش کی ایسے لوگوں کا برا ٹھکانا ہے اور وہ سیدھے رستے سے بہت دور ہیں۔‘‘ اور جیسے یہودی ان حیوانات کوباقی لوگوں پر ترجیح دیتے ہیں،ایسے ہی رافضی بھی حیوانات کو مسلمانوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ طوسی نے روایت کیا ہے : ’’ محمد بن حنفیہ سے روایت ہے بے شک وہ اپنے باپ سے حدیث بیان کرتا ہے، انہوں نے کہا ہے: ’’ اللہ تعالیٰ نے کتے سے بری کوئی مخلوق نہیں پیدا کی اور ناصبی کتے سے بھی زیادہ برے ہیں۔‘‘[1] اور برقی نے صدوق سے روایت کیا ہے : ابوعبد اللہ سے روایت ہے، وہ کہتا ہے : ’’بے شک نوح علیہ السلام نے کشتی میں کتا اورخنزیر بھی سوار کیے مگر اس میں ولد الزنا کونہیں بٹھایا، اور ناصبی ولد الزنا سے بھی برا ہے۔‘‘[2] اہلِ سنت و الجماعت کے خلاف ان لوگوں کا حقد و حسد اس انتہا کوپہنچ چکاہے۔خواہ کچھ بھی ہو؛ میں رافضیوں کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعداہل ِ سنت کے متعلق ان کے اس موقف سے بالکل حیران نہیں ہوا، اور نہ ہی اسے کوئی اوپری چیز سمجھتا ہوں ؛ جیسا کہ یہودیوں کے مسلمانوں سے متعلق موقف پر میں حیران نہیں ہوا۔اس لیے کہ میں جانتا ہوں یہ لوگ خواہ جتنا کچھ اور جو کچھ بھی کہہ لیں، اور جنتا بھٹک لیں ؛ گویاکہ میں ان کے متعلق محسوس کررہا ہوں کہاانہوں نے مذمت اور قدح کے لیے ایسی عبارات نہیں پائیں جن سے ان کے سینوں میں موجود اہل سنت و الجماعت کے خلاف حسد وبغض اور کینہ سے تشفی ہو۔ اور تعجب تو ان پر جو رافضیوں کی ایسی باتیں صحیح ہونے کے بارے میں شک کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی مقدس کتاب میں فرماتے ہیں :
[1] بصائر الدرجات ص: ۲۹۰۔ [2] بحار الأنوار ۲۷/ ۳۰۔ [3] بحار الأنوار ۲۷/ ۳۰۔