کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 532
گمان کرتے ہیں کہ انسان صرف وہی ہیں ؛ جب کہ ان کے علاوہ باقی لوگوں سے وہ اصل ِانسانیت کی نفی کرتے ہیں۔اور وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ باقی مخلوق بیوقوف لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ آخر کار جہنم سے جس سے انہیں پیدا کیا گیا ہے۔
ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت ہے،انہوں نے کہا ہے :
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عظمت کے نور سے پیدا کیا ہے، پھر عرش کے نیچے خزانے میں چھپائی ہوئی مٹی سے ہماری صورتیں بنائیں، پھر اس نو ر کو اس میں سکون دیا۔ سو ہم نورانی مخلوق اور بشر تھے۔ جس سے ہمیں پیدا کیا گیا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے کسی اور کے لیے کوئی حصہ نہیں رکھا۔ اور ہمارے شیعہ کی روحیں ہماری مٹی سے پیدا کی گئیں ؛ اور ان کے بدن اس [مٹی ]کے نیچے خزانے میں رکھی ہوئی پوشیدہ مٹی سے پیدا کیے گئے۔ اور جس مٹی سے انہیں پیدا کیا گیا، اللہ تعالیٰ نے کسی کا کوئی نصیب نہیں رکھا سوائے انبیاء کے۔ اس لیے صرف ہم اور وہ انسان بنے، اور باقی تمام بیوقوف لوگ آگ کے لیے ہیں،اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔‘‘[1]
اور ایک روایت میں ہے، جسے عیاشی نے اپنی تفسیر میں ابو عبد اللہ سے روایت کیا ہے: اس میں ہے: ’’شیعہ ہی انسان ہیں ؛ ان کے علاوہ باقی کے متعلق اللہ جانتا ہے کہ وہ کیا ہیں ؟‘‘ [2]
ان دونوں روایتوں کے مطابق رافضی اپنے مخالفین کو انسان نہیں سمجھتے۔ پھر یہ کذاب دوسری روایت کے آخر میں توقف اختیار کرتا ہے، اور کہتا ہے : اللہ جانتا ہے وہ کیا ہیں ؟
رافضیوں کی کتابوں میں تلاش کرنے سے اس کا جواب ان کی روایات میں سے کئی ایک روایتوں میں ملتا ہے۔ میں نے چند ایک وہ روایات محدود کی ہیں جو اس جنس کو بیان کرتی ہیں جن کے متعلق رافضی خیال کرتے ہیں کہ ان کے مخالف اس جنس سے ہیں۔
[روایات کے نمونے ]:
ذیل میں ان روایات کے نمونے دیے جارہے ہیں۔ صفار نے ’’بصائر الدرجات‘‘ میں روایت کیا ہے :ابو بصیر سے روایت ہے، وہ کہتا ہے :
’’ میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام کے ساتھ حج کیا، جب ہم طواف کرر ہے تھے،میں نے ان سے کہا : ’’ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے ! میں آپ پر قربان جاؤں ؛ اللہ تعالیٰ اس مخلوق کی مغفرت کردے گا؟انہوں نے کہا : اے ابو بصیر ! جن کو تم دیکھتے ہو،ان میں سے اکثر بندر اور خنزیر ہیں۔ کہتا ہے : میں نے کہا : انہیں مجھے دکھائیے۔ کہتا ہے : انہوں نے کچھ کلمات پڑھے، اور پھر میری آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا ؛ سو
[1] بحار الأنوار ۲۵/ ۸۔
[2] بصائر الدرجات ص: ۳۶؛ بحار الأنوار ۲۵/۱۱۔
[3] بصائر الدرجات ص: ۳۶؛ بحار الأنوار ۲۵/۹۔